Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل ! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اسے میں پورا کروں گا اور مجھ ہی سے تم ڈرو۔
بنی اسرائیل کو تنبیہ تشریح : اب پانچویں رکوع سے بنی اسرائیل کی تاریخ ہمارے لئے عبرت کا نشان ہے، کیونکہ پانچویں رکوع سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریرجاری ہے جو اس قوم کو خطاب کرتے ہوئے کی جارہی ہے جس میں بنی اسرائیل کی شرانگیزیوں، لغزشوں، گناہوں، نافرمانیوں، ہٹ دھرمیوں اور سرکشیوں کا ذکر ہے اس کے بعد ان سے تمام فضیلتیں چھن جانے کا بیان ہے۔ اسرائیل کے معنی ہیں اللہ کا بندہ ! یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب تھا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے تھے انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دو بیٹے ہوئے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) ۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حجاز میں آباد ہوئے اور ان کی اولاد میں حضرت محمد ﷺ پیدا ہوئے، جبکہ دوسرے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور پھر ان کے بیٹے حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے جن کا لقب اسرائیل پڑا ان کی اولاد مصر میں آباد ہوئی یہ لوگ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ طاقت کے لحاظ سے نفاق و بدامنی کی وجہ سے کمزور ہوگئے اور کچھ عرصہ کے بعد اہل مصر نے ان کو غلام بنا لیا۔ خوب ظلم و ستم کئے۔ بالآخر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے انہوں نے اس قوم کو غلامی سے نکالا اور ان کو وادی سینا میں لے گئے کچھ عرصہ بعد پھر یہ لوگ اپنے وطن کنعان میں لوٹ آئے اس قوم کا بہترین زمانہ حضرت داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کا تھا کچھ عرصہ بعد یہ قوم باہمی رقابت، دینی مخالفت اور انبیاء کی دشمنی کی وجہ سے پھر مصائب کا شکار ہوگئی۔ دو مرتبہ اس قوم پر اتنی شدید تباہی آئی کہ یہ لوگ اپنا وطن چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن انہوں نے اپنی شرارتیں آج تک نہیں چھوڑیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی ان نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں جو بنی اسرائیل پر کی گئیں۔ یعنی غلامی سے نجات دلانا، فرعون کی غرقابی ان کی نجات، من وسلویٰ جیسی خوراک بغیر مشقت کے عطاء کرنا اور ہمیشہ مصیبتوں میں غیبی مدد عطا کرنا ان تمام باتوں کی وضاحت آئندہ آیات میں کی جائے گی۔ (ان شاء اللہ) پھر اس آیت میں اس عہد کا ذکر بھی کیا گیا جو عالم ارواح میں اللہ نے لیا : ” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں “ ؟ تو تمام ارواح نے یک زبان ہو کر کہا ” کیوں نہیں آپ ہی ہمارے رب ہیں “ اس کے بعد دوسرا عہد جو حضرت آدم (علیہ السلام) کو دنیا میں بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سے کیا اور فرمایا کہ میں وقتاً فوقتاً آدم کی اولاد کے لئے نبی اور پیغمبر بھیجتا رہوں گا، تاکہ لوگ راہ ہدایت سے بھٹکنے نہ پائیں اور پھر جنت کے وارث بنیں تو اللہ تعالیٰ یاد کرواتے ہیں کہ نبیوں، رسولوں اور پیغمبروں کی ہدایات پر عمل کرو۔ نیکی، راستی، توحید امن و سکون اور ہدایت کی راہیں اختیار کرکے اپنا وعدہ پورا کرو تو میں تمہیں جنت الفردوس کا تحفہ عطا کرکے اپنا وعدہ پورا کروں گا۔ آخر میں پھر تنبیہہ کی جارہی ہے کہ دنیا میں کسی سے مت ڈرو صرف اور صرف اللہ سے ڈرو اس اشارہ میں تمام اخلاقی روحانی اور مذہبی اقدار سمٹ آتی ہیں۔ ہدایت کے لئے پچھلے چار رکوعوں میں نوع انسانی کو جو کچھ کہا گیا تھا۔ اسی کے سلسلے میں ایک خاص قوم کی مثال دی جارہی ہے کہ جو قوم بھی اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایات سے منہ موڑتی ہے اس کا یہ حال ہوتا ہے۔ پچھلے چار ہزار سال سے یہ قوم اخلاقی کمزوریوں، مذہبی غلط فہمیوں، اعتقادی و عملی گمراہیوں کی وجہ سے پوری دنیا کے سامنے نشان عبرت بنی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کو یاد دلایا جارہا ہے کہ وہ اس مذکورہ قوم کی خامیوں اور ان کے نتائج سے سبق سیکھیں اور ان راہوں سے بچیں جو ان کو دنیا و آخرت کی نعمتوں برکتوں اور جنت سے محروم کردیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں۔ برے لوگ اچھی بات میں بھی برائی ڈھونڈتے ہیں۔ جس طرح مکھی سارے بدن کو چھوڑ کر زخم پر بیٹھتی ہے۔
Top