Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلْتُ : میں نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِمَا : اس کی جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ اَوَّلَ کَافِرٍ : پہلے کافر بِهٖ : اس کے وَلَا تَشْتَرُوْا : اور عوض نہ لو بِآيَاتِیْ : میری آیات کے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَاتَّقُوْنِ : ڈرو
اور مان لو اس کتاب کو جو میں نے اتاری ہے اسے سچ بتانے والی ہے جو تمہارے پاس ہے اور سب سے پہلے اس کے انکار کرنے والے نہ ہوجاؤ اور میری آیتوں پر تھوڑا مول نہ لو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو
تقویٰ کی ہدایت تشریح : اس آیت میں بھی بدستور یہودیوں کو مخاطب کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو کتاب ” قرآن مجید “ میں نے حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمائی ہے اس کو دل و جان سے سچ مان لو کیونکہ اس کی تصدیق تمہاری کتابوں میں کی جا چکی ہے اور قرآن مجید تمہاری کتابوں کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ بنی اسرائیل اہل کتاب ہیں اور مدینہ کے لوگ ان پڑھ جاہل ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل سے بہت مرعوب تھے اہل مدینہ حضرت محمد ﷺ اور قرآن کی تصدیق کے لئے یہودی علماء و مشائخ کے پاس جاتے تھے۔ وہ محض دنیاوی مصلحتوں کی بناء پر اسلام و قرآن کے بارے میں ٹھیک ٹھیک ان کو بتاتے نہ تھے، بلکہ بہت کچھ چھپاتے اور جو کچھ بتاتے وہ شک و شبہ میں ڈالنے کے لئے الٹا سیدھا بتاتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو مخاطب کرکے تنبیہہ کی کہ تم ہی سب سے پہلے قرآن و محمد ﷺ کو جھٹلانے والے نہ بن جاؤ اور پھر ہماری طرف سے جس قدر زیادہ علم تم اپنی کتابوں کی وجہ سے حاصل کرچکے ہو اور کوئی نہیں رکھتا لہٰذا ان پر ایمان لاؤ اور ہماری آیات جو تم سے لوگ پوچھتے ہیں ان کے بارے میں ان کو ٹھیک بتاؤ، دنیاوی نفع اور دنیاوی فائدوں کی وجہ سے غلط راستے اور غلط معنی نہ بتاؤ اس طرح غلط و صحیح کو مت ملاؤ ٹھیک آیات کے ٹھیک مطلب بتاؤ سچ بات مت چھپاؤ جو کچھ تم آخری نبی ﷺ قرآن کے بارے میں اپنی کتابوں کے ذریعہ جانتے ہو سب کچھ پورے سچ اور حقیقت کے ساتھ لوگوں کو بتاؤ اور خود بھی سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہوجاؤ اور لوگوں کی راہبری کا کام صداقت سے کرو، تم خوب اچھی طرح جانتے ہو کہ اسی میں تمہاری نجات ہے ورنہ اللہ کے غضب کا انتظار کرو تم خوب اچھی طرح علم رکھتے ہو کہ منکرین الٰہ کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور ایسے لوگ دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہوتے ہیں۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” حق پر استوار رہو خواہ یہ تمہارے نفس کے خلاف ہو “۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا :” سچائی میں اگرچہ خوف ہے مگر نجات بھی ہے “۔
Top