Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور بعض وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور روز آخرت پر حالانکہ وہ ایمان رکھنے والے نہیں
منافق کا دعویٰ ایمانی تشریح : اسلام کے آنے کے بعد تین گروہ پیدا ہوگئے تھے۔ مومن، منافق اور کافر، مومن اور کافر کے بارے میں کافی بتایا جا چکا ہے۔ اب منافق کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ ” منافق “ وہ لوگ ہیں جو بظاہر مسلمان کہلاتے، نماز پڑھتے، مگر دل سے ایمان نہ لاتے تھے، دل سے وہ مسلمانوں کے خلاف، کفار کے ساتھ ہوتے ہیں اور یہی نفاق کہلاتا ہے جو لوگ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کو دل سے مان لیتے ہیں وہ مسلمان کہلاتی ہیں اور جو دل سے نہیں مانتے وہ منافق کہلاتے ہیں۔ جب آنحضرت ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو قبیلہ خزرج کا عبداللہ بن ابی بن سلول نامی شخص جو کہ نہایت ہوشیار اور مکار تھا اس کی قبیلے کے سردار کی حیثیت سے ہونے والی تاج پوشی آنحضرت ﷺ کی ہجرت کی وجہ سے کھٹائی میں پڑگئی۔ لہٰذا اس نے مصلحت اس میں سمجھی کہ بظاہر مسلمان ہو کر اندر ہی اندر سے مسلمانوں کی جڑیں کاٹ دی جائیں۔ لہٰذا ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ منافقین کی بن گئی انہی منافقین کے لئے قرآن میں ہوشیار کیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں سے بچ کر رہیں، انہی لوگوں نے مسجد ضرار بھی تعمیر کی تھی، جس کا ذکر آئندہ صفحات میں کیا جائے گا۔ (ان شاء اللہ) دل اور زبان کی منافقت سے اللہ محفوظ ومامون رکھے اور ہر مسلمان کو رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنے کی توفیق دے کہ وہ ہر وقت اپنا محاسبہ کرے اور دنیا و آخرت میں سربلند ہو، منافق انسان آخرت میں اپنے نفاق کی وجہ سے شدید عذاب اٹھائے گا اور دنیا میں اس رسوائی سے نہیں بچ سکتا جو اس کا نفاق ظاہر ہونے پر اسکو اٹھانا پڑے گی۔ اللہ تمام مسلمانوں بلکہ نوع انسانی کو اس برائی سے بچائے رکھے آمین ثم آمین۔
Top