Mafhoom-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 104
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ١ؕ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ١ؕ وَعْدًا عَلَیْنَا١ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ
يَوْمَ : جس دن نَطْوِي : ہم لپیٹ لیں گے السَّمَآءَ : آسمان كَطَيِّ : جیسے لپیٹا جاتا ہے السِّجِلِّ : طومار لِلْكُتُبِ : تحریر کا کاغذ كَمَا بَدَاْنَآ : جیسے ہم نے ابتدا کی اَوَّلَ : پہلی خَلْقٍ : پیدائش نُّعِيْدُهٗ : ہم اسے لوٹا دیں گے وَعْدًا : وعدہ عَلَيْنَا : ہم پر اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم میں فٰعِلِيْنَ : (پورا) کرنے والے
جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں ‘ جس طرح ہم نے کائنات کو پہلے پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کردیں گے ‘ یہ وعدہ ہے جس کا پورا کرنا ضروری ہے اور ہم ایسا ضرور کرنے والے ہیں۔
قیامت کا منظر، نبی ﷺ کا پیغام تشریح : سب سے پہلے کائنات کے اختتام کا ذکر ہے کیونکہ یہ بالکل سچا اور پکا وعدہ ہے پھر اس کو دوبارہ پیدا کرنے کا وعدہ ہے۔ کائنات کے اختتام کا منظر کچھ یوں بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر دلدار احمد اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں۔ ” اس وقت اوراق کے یہ طومار کھلے ہوئے ہیں اور اس کے تمام نقوش اور خطوط پڑھے جا رہے ہیں۔ اور ہر ایک اپنی جگہ پر قائم اور برقرار ہے۔ لیکن جب قیامت کا حکم ہوجائے گا تو یہ عظیم طومار اپنے تمام خطوط و نقوش کے ساتھ لپیٹ دیے جائیں گے، یعنی کائنات پھیل رہی ہے اور ایک خاص حد تک وسعت پا چکنے کے بعد یہ دوبارہ سکڑنا شروع ہوجائے گی (یعنی) طومار لپیٹ دیے جائیں گے۔ ( از کائنات قرآن اور سائنس) ڈاکٹر ہلوک باقی صاحب اس آیت کے بارے میں یوں لکھتے ہیں۔ ” قرآن فہمی کے سلسلے میں جو آسمانوں کی تہوں کو ایک کتاب سے تشبیہ دیتی ہے۔ کائنات سے یہاں ہماری مراد مادی کائنات سے ہے اس لیے کہ مادی کائنات کی آسمانوں سے تمثیل (مثال) دی گئی ہے۔ “ مزید لکھتے ہیں کہ ” مادی اشیاء فضائے بسیط میں متعدد مقناطیسی سطحوں کو اس طریقہ سے پر کیے ہوئے ہیں جیسے کتاب کے اوراق ترتیب سے کھلتے ہیں۔ اگر اللہ کی مرضی اس توسیع کو رک جانے کا حکم دیتی ہے ‘ تو مادہ اسی لمحے منہدم ہوجاتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہے تو نئی ہستیاں ‘ نئے فاصلوں کے ساتھ وجود میں آجاتے ہیں۔ یہی وہ طبعی حقیقت ہے جس کا ادراک (سمجھ) بہت مشکل سے ہوتا ہے جس کو یہ آیت ظاہر کرتی ہے۔ ( از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) آسان زبان میں مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک میں قیامت کا ہولناک نقشہ کھینچا گیا ہے۔ کیونکہ آسمان تہہ در تہہ بنائے گئے ہیں۔ کئی دفعہ سات آسمانوں کا ذکر ہے۔ اب آپ ذرا تصور کریں کہ ان آسمانوں کو اگر رول کرلیا جائے جیسے خطوط کے پلندے کو رول کرلیا جاتا ہے تو ان آسمانوں میں موجود ہر چیز کا کیا حال ہوگا ؟ مکمل تباہی مکمل خاتمہ اور یہی قیامت کی تعریف ہے کہ سب کچھ پہلے تباہ ہوجائے گا اور پھر جب اس رول کو اللہ اپنے حکم سے کھولے گا تو یہ دوسری دنیا کا آغاز ہوگا جس میں تمام لوگ اپنے اعمال کے وڈیو کیسٹ کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر ہوں گے اور یہی یوم الحساب ہوگا۔ نیکی بدی ‘ توحید و شرک ‘ ایمان و کفر کا فرق قرآن سے پہلے بھی تمام آسمانی کتابوں میں اچھی طرح واضح کر کے بیان کیا جا چکا ہے اور پھر قیامت کا وعدہ بھی دہرایا جا چکا ہے اور پھر آخرت کا ذکر سزا اور جزا سب کچھ تمام نبیوں نے بڑی وضاحت سے بتایا مگر لوگ بھول جاتے رہے اور کچھ تو اپنے نبیوں کو ہی معبود بنا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسول سیدنا محمد ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ آپ بےفکر ہو کر اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ برے لوگوں کا تو ہمیشہ سے ہی یہ طریقہ چلا آیا ہے کہ حق کو ناپسند کرتے رہے جیسا کہ آپ نے ان سابقہ انبیاء کے حالات پڑھے ہیں۔ سب ہی آزمائشوں اور مصیبتوں سے دوچار ہوتے رہے مگر آپ کو فضیلت یہ دی گئی ہے کہ آپ کسی خاص قوم یا ملک کے لیے نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے بلکہ آپ تو پوری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ باقی امتوں پر تو عذاب بھیجے گئے مگر آپ کی امت پر عذاب نہیں بھیجا گیا وقتاً فوقتاً تنبیہ کے طور پر خبردار کرنے کے لیے اللہ کی ناراضگی فطرت کے قوانین میں سختی پیدا کر کے ضرور کی جاتی ہے مگر پھر مہلت دی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلیں۔ اللہ ہی کی عبادت کریں کیونکہ وہی قادر مطلق ہے۔ سمیع ہے بصیر ہے غفور ہے رحیم ہے اور وہی جانتا ہے قیامت کب آئے گی ؟ کفار ہر وقت یہی کہتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو پھر قیامت کیوں نہیں لاتے تو آپ نے ان کو پھر سمجھایا کہ اگر قیامت کے آنے میں دیر ہو رہی ہے تو غنیمت سمجھو شاید اللہ تعالیٰ تمہیں مہلت دے رہا ہے کہ اپنے سیدھے راستے پرچلو اور پکے مومن بن جاؤ تاکہ قیامت کی سختی ‘ جہنم کے عذاب اور اللہ کی سزا سے بچ سکو۔ خلاصہ سورة الا نبی اء اس سورت میں بڑے احسن انداز میں قرآن مجید، انبیائے کرام کا اور قیامت کی حقیقت کا ذکر کیا گیا ہے۔ تمام انبیاء کا ذکر کسی نہ کسی سبق آموز وسیلہ سے کیا گیا ہے۔ انسانی زندگی کے تمام کرداروں کو بڑی خوبی سے پیش کیا گیا ہے خاص طور سے ان مسائل کو واضح کیا گیا ہے جن کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ اور پھر محمد ﷺ کی ذات پاک کی فضیلت یوں بیان کی گئی کہ آپ ﷺ پوری دنیا کے لیے نبی یعنی رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ ﷺ انسان کامل تھے اسی طرح آپ ﷺ کی تعلیمات بھی کامل ہیں۔ آپ کی تعلیمات کی بنیاد خاص طور پر ان عقائد پر ہے جو انسانی زندگی کے لیے بہترین اصول ہیں۔ اللہ کا خوف اور آخرت کا خوف انسان کو انسان بناتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ کی جس قدر عزت احترام اور فرمانبرداری کی جائے کم ہے۔ جب ہم سورة الانبیاء پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس میں قیامت کی خبر پراثر انداز میں ملتی ہے۔ اللہ کی بڑائی اور رسول کی برتری اور رسولوں کی خاص خاص صفات معلوم ہوتی ہیں جو ہمارے لیے کامیاب زندگی کا نمونہ پیش کرتی ہیں مثلاً سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی فہم و فراست ‘ مستقل مزاجی ‘ قوت ایمانی ‘ رب سے پیار اور اس کی محبت اور ہر آزمائش میں پورا اترنا۔ تو پھرا ایسے بندے کو اللہ انعام و اکرام سے مالا مال کیوں نہ کرے گا۔ ان کو بیشمار انعامات سے اللہ نے نوازا۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) بھی اللہ کے برگزیدہ انسان تھے اور آپ کی دعا سے اللہ نے ان کو برے لوگوں سے نجات دی بلکہ پوری سرزمین کو ہی گنہگاروں سے دھو ڈالا اور نوح (علیہ السلام) آدم ثانی کہلائے کیونکہ ان کی نیک نسل سے دنیا آباد ہوئی۔ دائود و سلیمان (علیہم السلام) بادشاہ گزرے ہیں۔ جن کی بادشاہت ایسی تھی جو ان کی دعا میں ان کو ملی کہ نہ پہلے کسی کو ملی اور نہ بعد میں کسی کو ملے گی۔ کیونکہ پہاڑ ‘ ہوائیں ‘ چرند ‘ پرند اور جن سب ان کے ماتحت تھے اور پھر بھی اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری سے جھک کر شکر کرتے رہے کبھی غرور نہ کیا۔ سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا صبر اور دعا قابل رشک اور بےمثال ہے۔ سیدنا یونس (علیہ السلام) کا اپنی چھوٹی سی غلطی پر نادم ہونا اور پھر ان کی مانگی ہوئی پُر اثر دعا تمام لوگوں کے لیے روشنی کا باعث بنی۔ سیدنا ذکریا علیہ السلام۔ انتہائی نیک ‘ صالح اور اللہ سے ہر وقت ڈرنے والے انتہائی پرہیزگار انسان تھے۔ ان کی خدا خوفی اور بھلائیوں کی طرف رغبت کی وجہ سے اللہ نے آپ کی دعا قبول کی اور ناممکن حالات میں نیک اولاد سے نوازا پھر مریم (علیہا السلام) ان کی پاک دامنی ‘ صبر و سکون ‘ اللہ کی رضا پر راضی رہنا انسانیت کی بلندی کا نمونہ ہے۔ ان تمام انبیاء کا ذکر بار بار مختلف مقاصد کو واضح کرنے کے لیے کیا جاتا ہے جیسا کہ یہاں زندگی گزارنے کے بہترین اصول ان کی زندگیوں کے ذریعے سمجھائے گئے ہیں۔ اللہ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اور سب سے آخر میں نبی آخرالزماں پیارے رسول حضرت محمد ﷺ تشریف لائے کہ جن کی تعریف میں علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎ وہ دانائے سبل ‘ مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ
Top