Mafhoom-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 30
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ١ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا اَنَّ : کہ السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین كَانَتَا : دونوں تھے رَتْقًا : بند فَفَتَقْنٰهُمَا : پس ہم نے دونوں کو کھول دیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا مِنَ الْمَآءِ : پانی سے كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے حَيٍّ : زندہ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ : کیا پس وہ ایمان نہیں لاتے ہو
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔
کائنات اور انسان کی پیدائش کے راز تشریح : یہ آیات سائنسی نکات اور بڑے بڑے رازوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ جبکہ بظاہر تخلیق کائنات، تخلیق حیوانات، جمادات، نباتات اور تمام اجرام فلکیات کا ذکر ہے کہ یہ سب اللہ نے بنائے ہیں۔ انسان کی آزمائش کے لیے اس کو نعمتیں دیں اور پھر بتایا کہ زندگی ختم ہونے والی چیز ہے۔ اور پھر آخرت کا بھی بتا دیا کہ مرنے کے بعد تم کہاں جاؤ گے اور اس نے ذرے سے لے کر آسمان تک ہر چیز کا حساب کتاب بڑی وضاحت سے اپنے پاس لکھ رکھا ہے۔ آیت 30 میں بہت بڑا انکشاف ہے۔ کہ زمین آسمان جڑے ہوئے تھے تو ان کو ہم نے علیحدہ کردیا۔ علم فلکیات نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ واقعی زمین و آسمان جڑے ہوئے تھے۔ ہوا ایسے کہ سورج کے پاس سے کوئی سیارہ اسقدر زبردست طاقت سے گزرا کہ اس نے سورج کے کچھ حصہ کو اڑا دیا وہ تمام ذرات جو سورج سے علیحدہ ہوئے زمین اور بیشمار سیاروں میں تبدیل ہوگئے اور سورج کے گرد چکر لگانے لگے۔ کیونکہ یہ آگ کے گولے تھے اس لیے ان کا اوپر کا حصہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہونے لگا اور اس حصہ کو قرش الارض زمین کا چھلکا (اوپری تہہ) کہتے ہیں۔ آیت میں فتق کا لفظ اور رتق کا لفظ یہ بیان کر رہا ہے کہ دو جڑی ہوئی چیزیں علیحدہ علیحدہ کردینا۔ یعنی زمین و آسمان کا جڑا ہوا ہونا اور پھر بعد میں تخلیقی کارروائی سے ان کو جدا جدا کرنا۔ تخلیقی کارروائی مختصراً اوپر بیان کردی گئی ہے۔ آج کے تمام سائنس دان اب تک صرف یہی جان سکے ہیں کہ زمین کی ابتدا ہوئی جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ” آج کے Cosomolodists یہ کہتے ہیں کہ زمین کا وجود آج سے تقریباً دس سے بیس ارب سال پہلے ایک دھماکے سے وجود میں آیا۔ اس دھماکے کے بعد ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ سے قبل کائنات بلند توانائی کی روشنی پر مشتمل تھی۔ اس کا درجہ حرارت 1012 کیلون سے زیادہ اور کثافت (Denstiy) ×103 5 گرام فی مکعب سینٹی میٹر تھی۔ یہ روشنی بہت چھوٹی طول موج کی گا ما شعاعوں پر مبنی خیال کی جاتی ہے جس کی توانائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم اس قلیل ترین لمحہ وقت سے جب کائنات کا آغاز ہوا شروع نہیں کرسکتے۔ بلند توانائی کی روشنی (گاما شعاعوں) کے ذرات فوٹانوں کے باہمی تصادموں سے مادہ اور ضد مادہ کے ذرات وجود میں آئے یعنی پروٹان اور اینٹی پروٹان اور نیوٹران اور اینٹی نیوٹران ‘ مگر ایک ذرہ جب اپنی ضد ذرہ سے ٹکراتا ہے تو دونوں ختم ہو کر روشنی (گاما شعاعوں) کے فوٹان بنا دیتے ہیں۔ اس ادنیٰ درجہ حرارت (گاما شعاعوں) نے الیکٹرانز اور مخالف ذرات پازیٹرانز پیدا کیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس گیسی آمیزے کا درجہ حرارت گرتا گیا اور بگ بینگ کے کوئی ایک ارب سال کے اندر مادے نے کہکشائوں کی شکل میں آنا شروع کیا اور ستارے تشکیل دیے۔ “ (از کتاب کائنات قرآن اور سائنس) اس آیت کے درمیانی حصہ میں پانی کی افادیت بڑے ہی خوبصورت جامع اور معنی خیز انداز میں بیان کی گئی ہے۔ ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب اس کی وضاحت بڑے پیارے انداز سے کرتے ہیں ملاحظہ ہو : ” یہ معلوم ہوچکا کہ حیات کی بنیادی اکائی یعنی اس کا نمائندہ ایک سالمیہ ہے جسے (DNA) کہتے ہیں۔ قوت حیات صرف اس سالمیے میں ہوتی ہے ‘ اگر یہ سالمیہ صرف پانی ہی کے سالمیے سے پیدا ہوتا تو یہ آیت اس طرح سے ہوتی۔ ” ہم نے تمام زندہ چیزوں کو پانی سے پیدا کیا “ جبکہ قوت حیات ایک نئے اور ایک ہی جیسے سالمیے کی بناوٹ ہے جس نے نامیاتی کیمیا Chemicals) اصلی یا ابتدائی سالمیے سے حاصل کیے ہوتے ہیں۔ جدید علم حیاتیات نے یہ ثابت کردیا کہ پانی کے سالمیوں کے H+ اور OH- آئن (ION) (یارواں برقی پاروں کے جواہر) کے ذریعے پیدا ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر (N- P+) جو فاسفورس ‘ امینوایسڈ اور شکر کا مرکب ہوتا ہے کی آمیزش کے عمل میں h+ آئن ہی استعمال ہوتا ہے ‘ تابکار ہائیڈروجن (Tritum) کے ساتھ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ (D N O) سالمیے ہائیڈروجن (ION) صرف پانی ہی سے حاصل کرتے ہیں۔ اسی تجربے نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ہائیڈروجن آئن جسے ” حرکت پذیر ہائیڈروجن “ کہتے ہیں رائبوز (Ribose) شکر اور امینوایسڈ نکلائیڈ کے درمیان ایک مسلسل برقی میدان پیدا کرتا ہے۔ اس طرح وہ بنیاد تیار ہوتی ہے جس پر قوت حیات برقرار رہتی ہے۔ یہ اصول تمام قسم کے جسیموں (Organisums) کے متعلق بھی اسی طرح ہے۔ یعنی خلیے (Cells) صرف ہائیڈروجن کی مدد سے ہی اپنی مصروفیات یا حرکت جاری رکھ سکتے ہیں۔ خلیوں کی کیمسٹری پر تحقیق نے یہ ظاہر کیا ہے کہ تمام برقی سلسلے خلیے میں لائسو سوم (Lysosome) اور پانی کے برقی چارج (IONS) کی مدد سے قائم رہتے ہیں۔ مزید یہ تمام کیمیائی سلسلے ‘ خلیاتی لیبارٹری جسے ہم مٹو کو نڈیا (Mitochondria) کہتے ہیں ‘ پانی کے آئن (IONS) کی وساطت سے ہی کارگر ہوتے ہیں۔ یہ ثابت ہوا ہے کہ پانی کا سالمہ جسم میں سات سے چودہ دن تک رہتا ہے پھر خارج ہوجاتا ہے۔ اور پانی کے نئے آئن (IONS) اس کی جگہ لے لیتے ہیں اس طرح پانی نئی اور تازہ قوت حیات مہیا کرنے کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسیمے پانی کے ختم ہوجانے (شدید پیاس) کو برداشت نہیں کرسکتے۔ چناچہ پانی زندگی کی جیب (Genesis) اور قوت حیات کی بنیاد ہے۔ پھر اس کے بعد آیت اس اعلان پر ختم ہوتی ہے کہ ” پھر وہ کیوں نہیں مانتے ؟ “ یہ بات خاص طور سے ہمارے موجودہ دور کے کفار کے لیے ہے اس لیے کہ ابھی صرف تیس پینتیس سال قبل ہی قوت حیات کے لیے پانی کے ناگزیر ہونے کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ “ مختصر یہ ہے ” درحقیقت ہر جسیمہ اپنی مختصر سی لیبارٹری میں پانی کو نقدی کی طرح خرچ کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے جسم میں گلینڈز میں خاص قسم کے ہارمون پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ جو خلیوں کے اپنے اندر اور ایک دوسرے کے درمیان پانی کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ جسم میں موجود بہت سے مراکز بدن کی رطوبت کو جدا کرنے والے گلینڈز سے ایک کمپیوٹر جیسے نظام کے ذریعے منسلک ہیں۔ مثلاً بخار سے پہلے فالتو پانی نکل جاتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جسم اس قسم کی مدافعتی جنگ میں مصروف ہے جس میں بیکٹیریا کی موجودگی یا حملہ مشکل ہوجائے۔ ہمارے جسم نقصان دہ جراثیم کو زندہ رہنے کی مہلت نہیں دیتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل اس آیت کریمہ کے راز کے احساس کے تحت ہی وقوع پذیر ہے۔ چناچہ یہ عظیم معنی ہیں جو اللہ کے اس کلام میں پوشیدہ ہیں کہ ” ہم نے تمام زندہ چیزوں کو پانی کے توسط سے پیدا کیا۔ “ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق ) اگلی آیت میں پہاڑوں کا ذکر ہے۔ پہاڑوں کے بیشمار فائدے ہیں جن میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ اقعی زمین پر میخوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ زمین کی اوپری تہہ صرف 40 میل ہے جو کہ گرم ترین لاوہ سے بھری ہوئی ہے۔ پہاڑ زمین کے اندر تک بہت گہرائی تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں جو زمین کو توازن اور مضبوطی دے کر محفوظ رکھتے ہیں۔ ورنہ تو لاوے کا زور مسلسل زلزلے پیدا کرتا رہتا۔ پھر انسان کی سہولت کے لیے پہاڑوں کے درمیان میں بڑے بڑے راستے (درے) بنا دیے کہ انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں پورا پہاڑ پھاند کر عبور نہ کرنا پڑے اور آسانی سے سفر ہو سکے اسی طرح اگلی آیت 32 میں بیشمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت آسمان کا ذکر کیا گیا ہے۔ آسمان بیشمار حفاظتوں کے لیے بنایا گیا ہے اسی لیے اس کو چھت کہا گیا ہے۔ جس طرح چھت انسان کو آندھی طوفان سردی گرمی اور بارش سے محفوظ رکھتی ہے اسی طرح آسمان بھی کچھ ایسی حکمت اور حفاظت کے لحاظ سے بنایا گیا ہے کہ اس نے زمین کو ہر طرف سے پوری طرح لپیٹ رکھا ہے۔ اور یوں فضا سے سورج سے نقصان دہ اور گرم ترین شعاعوں اور مسلسل شہاب ثاقب کی بارش سے زمین کو محفوظ کردیا گیا ہے۔ یہ تو بڑی ہی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ مگر کفار پھر بھی نہ دھیان کرتے ہیں اور نہ سوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح اگلی آیت 33 میں اللہ کی بہترین تخلیق کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی دن رات اور ان سے متعلقہ سورج اور چاند انسان کے لیے بنا دیے تاکہ اس بہترین سسٹم سے انسان کو آرام اور کام کی زبردست سہولت مل سکے۔ اور اس میں بھی کئی سائنسی نکات بیان کردیے گئے ہیں۔ مثلاً چاند سورج ‘ ستارے اور زمین کا آپس میں ربط کے ساتھ چکر لگانا جو ان کی آپس میں کشش کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ کشش اس قدر مناسب اور ٹھیک طریقہ سے بنائی گئی ہے کہ ان کی گردش سے لوگ وقت ‘ دن ‘ ہفتے ‘ مہینے اور سال کی گنتی کرتے ہیں اور پھر راستے یعنی سمت بھی انہی سے معلوم کرتے ہیں۔ اس کام میں ہمارے مسلمان سائنس دانوں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں مثلاً ” ابو الفتح عمر بن ابراہیم خیام۔ عالی دماغ فلسفی ‘ شاعر ‘ علم فلکیات اور ہیئت کا زبردست عالم ‘ ماہر ریاضی دان ‘ شمسی اور قمری تاریخوں کی تحقیق کر کے ان میں مفید اصلاحات کرنے والا۔ دونوں قسم کی تاریخوں میں مطابقت پیدا کرنے والا ‘ ماہر موسمیات ‘ شمسی مہینوں کو درست کر کے دینی کاموں کے لیے قمری سال اور سرکاری دفاتر میں شمسی سال کو حکومت کے ذریعے رائج کرنے والا لیپ سال کا موجد۔ ایک عام انسان تھا مگر اس نے اللہ کے حکم کو مانتے ہوئے کائنات کی ہر چیز پر غور وفکر کر کے یہ کمال حاصل کیا کہ دنیا کو قرآن کی روشنی میں علم کے خزانے اور علم کی چکاچوند روشنی عطا کی۔ تو کیا یہ کفار اتنی سی سمجھ بھی نہیں رکھتے کہ اس دن رات اور چاند سورج ستاروں کے بنانے والے کو ہی پہچان سکیں اور ہدایت دینے والے کی نصیحت پر غور کر کے نیکی کی راہ اختیار کرسکیں۔ قرآن پاک میں 750 آیات میں کائناتی مظاہر پر غور وفکر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ کیا یہ لوگ اتنے ہی بےعقل ہیں کہ اللہ کی ذات کو کسی صورت بھی پہچان نہیں سکتے۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی اللہ کی مخلوقات جس شکل میں بھی ہوں اور سب ہی اللہ کے حکم کے مطابق ایک خاص مضبوط نظام کے تحت اپنی اپنی جگہ کام میں مصروف ہیں۔ جس کو جب اللہ چاہتا ہے اپنی طرف بلا لیتا ہے کسی کو بھی طاقت حاصل نہیں کہ اس کے حکم کے مطابق نہ چلے اور ہمیشہ اس دنیا میں باقی رہ سکے۔ آیت 34 اور 35 میں یہی حقیقت واضح کی گئی ہے کہ زندہ ہونا ‘ مرجانا اور پھر زندہ ہونا یہ اصول ہر مخلوق کے لیے ضروری ہے اور اٹل ہے۔ یہاں اس دنیا میں برائی اور بھلائی ‘ نیکی اور بدی ‘ صحت و بیماری ‘ عزت و دولت ‘ امیری اور غریبی۔ غرض ہر قدم پر انسان کو آزمایا گیا ہے۔ کہ صبر و شکر سے کام لیتا ہے یا کہ سرکشی اور غفلت میں پڑ کر زندگی گزارتا ہے ؟ اور یہی زندگی کا مقصد ہے کیونکہ جب آخر میں اللہ کے حضور حاضری ہوگی تو اسی گزرے ہوئے وقت کے مطابق ہمیشہ والی زندگی دی جائے گی۔ اچھی یا بری۔ یہ سب کچھ رب ذوالجلال اپنے پیارے رسول کی ہمت بندھانے کے لیے بار بار فرما رہا ہے۔ کہ بد فطرت انسان کو راہ راست پر لانا بہت مشکل کام ہے۔ اس لیے آپ ان سے پریشان نہ ہوں۔
Top