Mafhoom-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 48
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَۙ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے عطا کی مُوْسٰى : موسیٰ وَهٰرُوْنَ : اور ہارون الْفُرْقَانَ : فرق کرنیوالی (کتاب) وَضِيَآءً : اور روشنی وَّذِكْرًا : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو ہدایت اور گمراہی میں فرق کردینے والی روشنی اور نصیحت کی کتاب عطا کی پرہیزگاروں کیلئے۔
تورات کی صفات اور قرآن مجید کا بابرکت ہونا تشریح : جیسا کہ کئی دفعہ بیان ہوچکا ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا پھر برے بھلے کی تمیز دی، یعنی عقل سمجھ اور علم عطا کیا۔ مگر کیونکہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ بھول جاتا ہے غلطی کر بیٹھتا ہے تو اس کو خبردار کرنے کے لیے اللہ کی خاص رحمت اس پر یہ بھی نازل کی گئی کہ وقتاً فوقتاً اس کی ہدایت کے لیے انبیاء بھیجے گئے اللہ ان انبیاء پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کیونکہ انہوں نے اولادآدم کو سیدھی راہ پر چلانے اور برائیوں سے بچا کر تقویٰ کی روشنی کی طرف بلانے کے لیے بےحد تکالیف ‘ پریشانیاں اور مصائب برداشت کیے اسی لیے یہ برگزیدہ لوگ اللہ کے مقبول ترین لوگ ہیں ان کی تعلیمات ہمیشہ ایک ہی رہی ہیں۔ یعنی توحید اور تقویٰ ۔ تقویٰ کے اندر سیرت و کردار کی تمام خوبیاں آجاتی ہیں۔ اب یہاں سے انبیاء کا ذکر شروع ہو رہا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ رشد و ہدایت کی تعلیم دینے کے لیے کن کن مشکلات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دی گئی جو کہ رشد و ہدایت کی باتوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان کی قوم بنی اسرائیل مصر سے آزاد ہو کر جزیرہ نمائے سینا میں آباد ہوئی۔ آپ کو اللہ سے کلام کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ سیدنا ہارون (علیہ السلام) کو نبوت دے کر آپ کا معاون بنایا گیا۔ آپ کی امت بہت زیادہ تھی۔ آپ کو جہاد کا حکم ہوا۔ آپ کو معجزات دیے گئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت اور پرورش فرعون کے محل میں ہوئی۔ کیونکہ آپ کی والدہ نے فرعون کے حکم سے ڈرتے ہوئے آپ کو تابوت میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا تھا جو فرعون کے ہاتھ لگ گیا اور اس نے ان کو خود ہی پرورش کیا۔ اس کی تفصیلات گزری چکی ہیں۔ بہرحال آپ کی قوم بڑی عجیب قوم تھی اپنی ہٹ دھرمی ‘ نافرمانی اور بےراہروی کی وجہ سے اللہ کے غضب کا شکار ہوگئی اور نبوت بھی ان سے منتقل ہو کر قریش کے قبیلے میں آنحضرت ﷺ کو مل گئی۔ آپ پر قرآن پاک نازل ہوا۔ جو رشد و ہدایت ‘ اور جامعیت کا خزانہ ہے اس میں ان تمام کتابوں پر ایمان لانے کو کہا گیا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں۔ ” تو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو ”؟ آیت 50 یعنی قرآن مجید تمام پہلی کتابوں کا نچوڑ ہے۔ اس لیے اس پر ایمان لانا نہ صرف اچھا ہے بلکہ دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ ان کے بعد جد الانبیاء سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا ہے۔
Top