Mafhoom-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 76
وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ
وَنُوْحًا : اور نوح اِذْ نَادٰي : جب پکارا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَاسْتَجَبْنَا : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَنَجَّيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے نجات دی وَاَهْلَهٗ : اور اس کے لوگ مِنَ : سے الْكَرْبِ : بےچینی الْعَظِيْمِ : بڑی
اور نوح نے ان سے پہلے ہمیں پکارا تو ہم نے اسکی دعا قبول کرلی ‘ ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بڑی گھبراہٹ سے نجات دی۔
سیدنا نوح (علیہ السلام) کی نجات تشریح : سیدنا نوح (علیہ السلام) بڑے عالی مرتبہ پیغمبر گزرے ہیں ان کے بارے میں سورة الاعراف میں آیات 59 تا 64 میں بیان ہوچکا ہے یہاں ذکر ان کی دعا کا ہے۔ کہ جب قوم سے ناامید ہوگئے تو تھک ہار کر اللہ سے دعا کی ” پروردگار میں مغلوب ہوگیا ہوں ‘ اب میری مدد کو پہنچ۔ “ (القمر آیت 10) اور دعا کی ” پروردگار زمین پر ایک کافر باشندہ بھی نہ چھوڑ۔ “ (نوح آیت 26 ) تو اللہ نے ان کی دعا قبول کی۔ ان کو اور نیک بندوں کو کشتی میں سوار کر کے بچا لیا اور باقی تمام لوگوں کو طوفان نوح میں غرق کردیا۔ اور یوں آپ نے آدم ثانی کا لقب پایا۔ مطلب یہ ہے کہ رسالت کا فریضہ سخت مشکل ہے مگر اللہ ہر وقت انبیاء کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی دعائیں زیادہ قبول کرتا ہے اور ان کو مشکلات سے نجات بھی اپنی حکمت سے ضرور دلاتا ہے۔ جب کوئی قوم حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو پھر اللہ نبی کو نکال لیتا ہے اور قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اب سیدنا دائود و سلیمان کا ذکر ہوتا ہے۔
Top