Mafhoom-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 93
وَ تَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ١ؕ كُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
وَتَقَطَّعُوْٓا : اور ٹکڑے ٹکڑے کرلیا انہوں نے اَمْرَهُمْ : اپنا کام (دین) بَيْنَهُمْ : باہم كُلٌّ : سب اِلَيْنَا : ہماری طرف رٰجِعُوْنَ : رجوع کرنے والے
اور لوگوں نے اپنا کام آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا ‘ مگر سب ہمارے ہی پاس لوٹ کر آئیں گے۔
لوگوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تشریح : جب ہم نے اتنے انبیائے کرام کے متعلق پڑھ لیا تو ہمیں اچھی طرح یہ معلوم ہوگیا کہ تمام انبیاء نے ایک ہی تعلیم دی یعنی توحید کی تعلیم مگر بدنصیبی انسان کی کہ اس نے اپنے اپنے دنیاوی مفادات کے مطابق اصلی تعلیمات کو بدل کر اپنے اپنے عقیدے اور مرضی کے مطابق بالکل الٹ پلٹ کردیا۔ حالانکہ تمام انسان ایک اللہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ سب برابر ہیں سوائے ان لوگوں کے جو نیک کام کرتے ہیں اور اللہ کو ایک مانتے ہیں ان کو رب العزت نے دنیا میں بھی اعلیٰ درجات دیے اور آخرت میں بھی ان کا مقام بلند ہوگا۔ صاف صاف اور بار بار یہ اعلان قرآن پاک میں اور قرآن سے پہلی کتابوں میں کردیا گیا ہے کہ تمام لوگ اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے اپنے اعمال کا بدلہ ضرور پائیں گے اور ہر شخص کا ہر عمل لکھا جا رہا ہے۔ مولانا وحید الدین صاحب اپنی کتاب میں اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں۔ ” تحت الشعور کا یہ نظریہ اب نفسیات میں عام طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے کہ ہر بات جو آدمی سوچتا ہے ‘ اور ہر اچھا یا برا خیال جو اس کے دل میں گزرتا ہے وہ سب کا سب نفس انسانی میں اس طرح نقش ہوجاتا ہے کہ پھر کبھی نہیں مٹتا ‘ وقت کا گزرنا یا حالات کا بدلنا اس کے اندر ذرہ برابر بھی تبدیلی پیدا نہیں کرتا ‘ اور یہ واقعہ انسانی ارادے کے بغیر ہوتا ہے۔ خواہ انسان اسے چاہے یا نہ چاہے۔ یہ واقعہ صریح طور پر اس امکان کو ظاہر کرتا ہے کہ جب دوسری زندگی شروع ہوگی تو ہر شخص اپنے پورے نامہ اعمال کے ساتھ وہاں موجود ہوگا ‘ آدمی کا خود اپنا وجود گواہی دے رہا ہوگا کہ کن نیتوں اور کن خیالات کے ساتھ اس نے دنیا میں زندگی بسر کی تھی۔ “ (از مذہب اور جدید چیلنج) مسلمانوں کا عقیدہ تو بالکل اس بات پر پکا ہے کیونکہ قرآن پاک میں اس کو بار بار وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ بلکہ آج کا غیر مسلم سائنسدان ‘ محقق اور تاریخ دان بھی اب اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ پھر یہ بات کہ جو بستیاں عذاب الٰہی سے یا قدرتی آفات سے نیست و نابود ہو چکیں وہ دوبارہ کبھی ان ہلاک شدہ لوگوں سے آباد نہیں ہوسکتیں ہم دن رات یہ حقیقت دیکھتے ہیں کہ مرنے والا اس دنیا میں ہرگز کسی صورت واپس نہیں آسکتا البتہ اس وقت ضرور زندہ کیا جائے گا اللہ کے حکم سے جب قیامت آئے گی۔ قیامت کب آئے گی ؟ اس کا علم سوائے رب ذوالجلال کے کسی کو نہیں البتہ اس کے آنے کی نشانیاں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کچھ اس طرح بیان فرمائی ہیں۔ ملاحظہ ہو :
Top