Mafhoom-ul-Quran - Al-Hajj : 14
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُدْخِلُ : داخل کرے گا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو لوگ ایمان لائے وَ : اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : انہوں نے درست عمل کیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهٰرُ : نہریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہتا ہے
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اللہ ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
ایمان والوں کیلئے خوشخبری ‘ اللہ کی عظمت و شان تشریح : یہ سب باتیں غیب کی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ رسول کو وحی کے ذریعے بتاتا ہے اور رسولوں کو بتاتا ہے اور رسول لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اللہ قادر مطلق ہے۔ اس نے تمام لوگوں کو توحید کا وعدہ لینے کے بعد دنیا میں بھیجا جس کو ” عہد الست “ کہا جاتا ہے۔ یعنی انسان کو نیکی پر ہی پیدا کیا گیا ہے مگر جس طرح ایک ہی کھیت میں کچھ پودے صحت مند اور کچھ ناقص اگ آتے ہیں اسی طرح آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں بھی کچھ شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور کچھ نہیں آئے انہوں نے ایمان کو ترجیح دی اور قائم و دائم رہے تو ایسے ہی لوگوں کو خوشخبری دی جا رہی ہے کہ آخرت میں ان کو بہترین ٹھکانے اور بہترین پر آسائش زندگیاں ضرور دی جائیں گی یہ غیب کی خبر ہے مگر ہے بالکل سچی کیونکہ یہ خدائے برتر الہ العلمین کی دی ہوئی خبر ہے۔ ہرگز غلط نہیں ہوسکتی۔ پھر اس کا علم اس قدر وسیع اور مکمل ہے کہ وہ ہر انسان کو فطرت کے لحاظ سے خوب جانتا ہے کہ کونسا انسان کیا راستہ اختیار کرے گا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک استاداپنے شاگرد یا ایک ماں اپنے بچے کو خوب پہچان لیتے ہیں کہ اس کی فطرت اس کا رجحان کیا ہے اور بڑا ہو کر یہ کیا کرے گا تو یہ علم و ادراک کی بات ہے جو اللہ نے فرمایا کہ ” اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ “ آیت (14) بظاہر کوئی دینداریا متقی دکھائی دیتا ہے جب کہ اس کی نیت صاف نہیں بلکہ صرف دکھاوے کے لیے سب کچھ کرتا ہے تو کیونکہ اللہ کا علم تو نیتوں تک کو جانتا ہے۔ اور انتہائی انصاف کرنے والا ہے اس لیے وہ بڑے وسیع علم کی وجہ سے ہر ایک کو ٹھیک ٹھیک بدلہ دے گا۔ دنیا بیشمار قسم کے مذاہب اور عقائد رکھنے والوں سے بھری پڑی ہے مگر اللہ کو ان کے اعمال کے مطابق ان کا فیصلہ کرنا ہرگز مشکل کام نہیں۔ وہ تو بڑا ہی باخبر اور سمیع وبصیر ہے ہر چیز جو کچھ اس کائنات میں موجود ہے سب ہی اللہ کے فرمانبردار ہیں۔ جن میں پہلے نمبر پر انسان پھر حیوان پھر نباتات اور پھر جمادات آتے ہیں۔ انسان تو ارادہ سے سجدہ کرتا ہے جبکہ باقی سب حکم الٰہی کے مطابق اپنے طریقہ سے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں۔ مگر بندوں میں سے جو نافرمانی کرتے ہوئے سجدہ نہیں کرتے وہ یقینا اپنے آپ کو ذلیل و خوار کرتے ہیں اور یہ ذلت و خواری ان سے کوئی بھی دور نہیں کرسکتا۔ سوائے رب العزت کے۔ پھر ان لوگوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو سیدنا محمد ﷺ سے حسد کرتے تھے کہ یہ تو معمولی انسان ہیں ان کو نبوت اور وحی کا درجہ کیوں دیا گیا۔ تو اللہ نے ایسے لوگوں کو بتایا کہ رسول ﷺ کو روحانی بلندی تو ملی ہوئی ہے مالی ترقیاں بھی ان کو ضرور اور خوب ملیں گی تم لوگ اگر کچھ کرسکتے ہو ‘ تو ضرور کر دیکھو اور اگر پھر بھی تمہارا غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو پھر بہتر ہے خود کشی کر ڈالو کہ حسد و بغض اور غصہ سے نجات مل جائے۔ اللہ نے تو اپنے حساب کتاب اندازے اور تدبیر سے یہ دنیا اور اس کی ہر چیز بنائی ہے وہ قادر مطلق ہے۔ ” اور بیشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ “ (آیت 18 الحج) ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ یعنی جو حکم ان کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے وہ اس سے ہٹ کر کچھ نہیں کرسکتے۔ پہاڑ کو حکم ہے کھڑا رہے۔ ہوا کو حکم ہے چلے۔ پانی کو حکم ہے بہے یا ٹھہرا رہے یعنی درخت چرند پرند سب اللہ کے حکم کو مانتے ہوئے اپنی اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں اور یہی عبادت ہے۔ عبادت کا مطلب ہے تابع ہوجانا یعنی مالک کی غلامی میں پوری طرح بلاچون و چرا حکم کی تابعداری کرنا۔ رام ہوجانا۔ غلامی ‘ اطاعت ‘ پوجا ‘ ملازمت یعنی مالک کے سامنے بالکل جھک جانا۔ واقعی ہر چیز اللہ کے بنائے ہوئے قوانین جن کو ہم سائنسی قوانین کہتے ہیں۔ ان ہی قوانین کی پابندی کرتی ہے اور حکم الٰہی کے مطابق عمل کرتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں تسبیح کرنا یعنی سجدہ کرنا۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر شے جاندار ہو یا بےجان سب اپنے خالق کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور اس کی خدمت میں سجدے کرتے ہیں۔ انسان کو تو ارادہ کی طاقت دی گئی ہے اس لیے وہ جن پر اللہ کی رحمت ہے سجدے کرتے ہیں اور جو شیطان کے دوست ہیں وہ لعنت میں پڑچکے ہیں۔ ان کو دردناک عذاب ضرور دیا جائے گا اگلی آیات میں انہی کا ذکر ہے۔
Top