Mafhoom-ul-Quran - Al-Hajj : 27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ
وَاَذِّنْ : اور اعلان کردو فِي النَّاسِ : لوگوں میں بِالْحَجِّ : حج کا يَاْتُوْكَ : وہ تیرے پاس آئیں رِجَالًا : پیدل وَّعَلٰي : اور پر كُلِّ ضَامِرٍ : ہر دبلی اونٹنی يَّاْتِيْنَ : وہ آتی ہیں مِنْ : سے كُلِّ فَجٍّ : ہر راستہ عَمِيْقٍ : دور دراز
اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو ۔ لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیدل بھی اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز راستوں سے پہنچتی ہوں گی۔
اعلان حج تشریح : آج جو حاجی ” لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ “ حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے اللہ “ یہ پڑھتے ہوئے حج اور عمرہ کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو یہ اسی اعلان کا جواب ہے جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ مکمل ہونے پر حج کے لیے لوگوں کو بلانے کے لیے کیا تھا۔ شان خداوندی ہے کہ اس اعلان کے جواب میں مقررہ تاریخوں پر پوری دنیا سے مسلمان خانہ کعبہ کی طرف سفر کرنے لگتے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے ان شاء اللہ۔ پھر حج کے دنیاوی فائدوں کی بات کی گئی دینی فریضہ تو یہ ہے ہی۔ حج بہت بڑی عبادت یعنی ارکان اسلام کا اہم رکن ہے۔ اور دنیاوی فائدہ تجارت کی اجازت ہے۔ دوسرا فائدہ وہ ذکر ہے جو قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ قربانی کی حقیقت تو صرف عبادت کا ذریعہ ہے۔ اور پھر یہ گوشت بھی حلال کردیا گیا ہے۔ یہ قربانی ذی الحجہ کی دسویں ‘ گیارہویں اور بارہویں تاریخوں میں کی جاتی ہے۔ قربانی کے بعد احرام کھولنا ‘ غسل کرنا اور سر کے بال اتروانا فرض ہے۔ پھر نذر یعنی منت پوری کرنے کا حکم ہے کہ وہ بھی پوری کردی جائے۔ پھر طواف زیارت کا ذکر یہ ہے یہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو کیا جاتا ہے اس سے پہلے رمی ‘ جمرہ اور قربانی کی جاتی ہے۔ پہلا رکن وقوف عرفات ہے پھر طواف زیارت پر احرام کھل جاتا ہے کیونکہ احکام مکمل ہوجاتے ہیں۔ بیت عتیق کا مطلب ہے آزاد گھر۔ کیونکہ یہ گھر کفار اور ہر قسم کے شرو فساد کے غلبہ سے آزاد ہے۔ احکام شرعیہ کے مطابق قربانی کے جانور اونٹ ‘ گائے ‘ بکرا ‘ مینڈھا اور دنبہ حلال ہیں پھر یہ حکم ہے کہ جھوٹی بات سے بچو اللہ کے احکامات کا احترام کرو۔ کیونکہ یہی تقویٰ ہے۔ پھر قربانی کے جانور سے کسی بھی قسم کا فائدہ حاصل کرنا منع ہے جب جانور کو حج وغیرہ پر ذبح کرنے کا سوچ لیا ہو یعنی ساتھ لے لیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جانور ذبح کرنے کی حقیقت صرف یہی ہے کہ صرف اللہ کے لیے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسی کا نام لے کر جانور ذبح کیا جائے تو یہ بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ تو عاجزی اور خلوص سے صرف اللہ کی ہی عبادت کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ اور ان لوگوں کی خصوصیات یہ ہیں کہ وہ تمام احکامات الٰہی پورے کرتے ہیں۔ (1) مصیبتوں پر صبر اور شکر ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ راضی برضاء ہونے کی نشانی ہے۔ (2) نماز خشوع و خضوع، پابندی اور سنت کے مطابق قائم کرتے ہیں۔ (3) جو مال ان کو دیا گیا ہے وہ شریعت محمدی ﷺ کے مطابق خرچ کرتے ہیں یعنی صدقہ اور قربانی کرتے ہیں۔ حج ادا کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ یعنی سفید پوش اور فقیر کا خیال رکھتے ہیں۔ آخر میں اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ جس کو نحر کرنا کہتے ہیں بتا دیا کہ اس کو کھڑا کر کے نیزہ مارا جاتا ہے ایک ٹانگ اٹھا کر باندھ دی جاتی ہے۔ جب بہت خون نکل جاتا ہے تو اونٹ خود بخود گر پڑتا ہے۔ کیونکہ اتنے بڑے جانور کو لٹا کر ذبح کرنا مشکل ہے۔ مگر ضروری ہے کہ نیزہ مارتے ہوئے اللہ کا نام لے لیا جائے۔ یہ سب کچھ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا ہر وقت اللہ کا ہی شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ حج زندگی میں ایک دفعہ اور استطاعت رکھنے والے پر فرض ہے۔ میقات ‘ احرام ‘ طواف ‘ سعی ‘ عرفہ ‘ رمی اور قربانی یہ مناسک حج ہیں ان میں سے کچھ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سیدہ ہاجرہ کی یاد میں کیے جاتے ہیں۔ آپ ہی واحد شخصیت ہیں جن کی عزت و احترام اکثر اقوام کرتی ہیں۔ حج کیونکہ زندگی میں ایک دفعہ کیا جاتا ہے لہٰذا پورے ذوق و شوق اور دل و دماغ کی پوری گہرائیوں کے ساتھ کرنا چاہیے کہ دل پر پوری زندگی کے لیے اللہ کی محبت اور بزرگی کا ایسا نقش بن جائے کہ بقیہ زندگی اللہ کی عبادت ہی بن جائے۔ یہی اصل حج ہے اور صحیح عبادت ہے۔ یہ ایک ایسی اجتماعی عبادت ہے کہ جس سے بین الاقوامی جذبے اور انسانی اخوت کو فروغ ملتا ہے اور دنیا کے مسلمانوں کو مل بیٹھ کر کئی مسائل حل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ غرض حج ایک ایسی عملی مشق ہے جو مسلمانوں کو صبر و ثبات ‘ عزم و ارادہ ‘ محنت مشقت ‘ خوف خدا اور قرب الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ خانہ کعبہ کے بارے میں کچھ معلومات عرض کی جارہی ہیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) نے بیت اللہ تعمیر کیا پھر مختلف ادوار میں تعمیر نو ہوتی رہی۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کی اونچائی 4.32 میٹر رکھی۔ موجودہ دور میں اس کی اونچائی 12.95 میٹر ہے۔ غلاف کعبہ بہترین ریشم سے بنایا جاتا ہے۔ کلمہ طیبہ اور دوسری کئی آیات سونے کے تاروں سے بنائی جاتی ہیں۔ اس کی تیاری میں 240 افرادباوضوہوکرکام کرتے ہیں 670 کلو گرام ریشم اور 17 ملین سعودی ریال خرچہ آتا ہے اور میں دروازہ 280 کلوخالص سونے سے بنایا گیا ہے۔ حجراسود 1//1/2 میٹر اونچائی پر خانہ کعبہ کی دیوار میں چاندی کے خول میں نصب کیا گیا ہے۔ چھت پر جو پرنالہ 4 فٹ لمبا ہے اس پر سونے کا خول چڑھا ہوا ہے۔ یہ سب تو بیت اللہ کی ظاہری شکل و صورت ہے دراصل یہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس مقام ہے دنیابھرکے مسلمان خانہ کعبہ کی طرف ہی منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں یہ امن سکون کی جگہ ہے یہاں لڑائی جھگڑا قتل و فساد جانوروں کا شکار حتیٰ کے بیل بوٹے جڑی بوٹیاں اکھیڑنا بھی منع ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے مسلمانوں کا مرکز ہے۔ دنیا کے بت کدوں میں پہلا یہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں یہ پاسباں ہمارا
Top