Mafhoom-ul-Quran - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
اور یقینا ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے پیدا کیا ہے۔
انسانی پیدائش کے مختلف مراحل اور قدرت کا کمال تشریح : آج کے سائنسی تجربات اور تحقیقات انسان کی ابتدا سے انتہا تک قرآن پاک کی بیان کردہ معلومات کے عین مطابق ثابت ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر موریس بوکائے قرآنی آیات کی روشنی میں اس تمام سلسلے کو بڑے اچھے انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” لفظ سُلٰلَۃِ کسی ایسی چیز کو ظاہر کرتا ہے جو کشید کی گئی ہو، یعنی جو کسی چیز کا بہترین جزو ہو۔ “ یعنی نطفہ جو مٹی سے حاصل کی گئی خوراک سے بنتا ہے۔ پھر لکھتے ہیں : ” بیضہ کا بارآور ہونا اور افزائش نسل ‘ ایک خلیے سے وجود پاتے ہیں۔ جو نہایت لمبوترا ہوتا ہے۔ یہ ایک ملی میٹر کے دس ہزارویں حصے کے برابر ہوتا ہے۔ عام حالات میں ان کروڑوں خلیات میں جو انسان کے اندر تخلیق پا کر نکلتے ہیں صرف ایک خلیہ بیضہ دان میں نفوذ (رہتا ہے) پاتا ہے۔ ان تمام میں سے بڑی تعداد پیچھے رہ جاتی ہے۔ ایک بار جب قنات البیض میں بیضہ بارآور ہوجاتا ہے تو رحم کے اندر قرار پکڑتا ہے۔ قرآن پاک میں بیضہ کی جائے قرار کو محفوظ جگہ یعنی رحم یا بچہ دانی کہا گیا ہے۔ رحم کے اندر وہ جم کر اپنی غذائیت حاصل کرتا ہے جسے جما ہوا خون کہا گیا ہے۔ لفظ ہے عَلَقَہ جمی ہوئی چیز اس کے بعد قرآن کے مطابق مضغۃ کا لفظ ہے یعنی بوٹی یعنی جنین گوشت کے لوتھڑے کی شکل سے ہو کر گزرتا ہے اس کے بعد ہڈیاں بنتی ہیں اور ان کے اوپر گوشت چڑھتا ہے۔ اور پھر ایک متناسب شکل میں صورت تیار ہوجاتی ہے۔ “ (ازبائبل قرآن اور سائنس) بھلا یہ سب کچھ کسی انسان یا کسی بھی محقق ‘ سائنسدان یا ماہر طب کے بس میں ہے کہ یوں انسان کو بنا سکے ؟ یہ کمال تو صرف اور صرف اس بابرکت باکمال اور عظیم و کبیرباری تعالیٰ کا ہی کام ہے جو اپنے کمال میں واحد ہے اس کو اپنے کسی بھی کام میں کسی دوسرے کی مدد کی ہرگز ضرورت نہیں وہ خالق مطلق ہے۔ وہ انسان کو ایک بوند پانی سے پیدا کرتا ہے، پھر انسان دنیا میں آکر آہستہ آہستہ زندگی کے مختلف مراحل طے کرتا ہے یعنی بچہ ‘ نوجوان ‘ جوان ‘ ادھیڑ عمر اور پھر بڑھاپا۔ اس عمر کے کسی بھی حصہ میں اللہ کے حکم سے وہ مرجاتا ہے، دنیا سے رابطہ ختم ہوجاتا ہے قبر میں اس سے سوال و جواب ہوتے ہیں۔ اس کی قبر نیک ہونے کی صورت میں وسیع ہوجاتی ہے اور بد ہونے کی صورت میں تنگ ہوجاتی ہے، اگر کوئی نیک ہے تو قبر میں اس کے لیے جنت کا بچھونا اور اگر بد ہو تو جہنم کا بچھونا بچھا دیا جاتا ہے۔ یہ عالم برزخ کہلاتا ہے اور پھر اللہ کے وعدے کے مطابق قیامت کے دن اسی طرح دوبارہ اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ جس طرح پہلے پیدا کیا گیا۔ مگر اس کی پیدائش کا طریقہ مختلف ہوگا۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا ” پھر قیامت کے روز اٹھا کھڑے کیے جاؤ گے۔ “ (المومنون آیت : 16 )
Top