Mafhoom-ul-Quran - Al-Muminoon : 62
وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَا نُكَلِّفُ : اور ہم تکلیف نہیں دیتے نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی طاقت کے مطابق وَلَدَيْنَا : اور ہمارے پاس كِتٰبٌ : ایک کتاب (رجسٹر) يَّنْطِقُ : وہ بتلاتا ہے بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَهُمْ : اور وہ (ان) لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے (ظلم نہ ہوگا)
اور ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس کتاب ہے جو سچ سچ کہہ دیتی ہے اور ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اللہ رحیم بھی ہے اور حساب لینے والا بھی ہے تشریح : یہ آیات بڑی معنی خیز ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ احکامات انسان کے لیے نازل کیے گئے ہیں چاہے وہ دین سے تعلق رکھتے ہوں ایمان سے ‘ وحی سے انسانی زندگی سے ‘ عبادات اور عملیات سے تعلق رکھتے ہوں سب ہی بےحد آسان فائدہ مند اور معمولات انسانی سے مطابقت رکھنے والے ہیں۔ کوئی بھی ایسا فریضہ یا اصول نافذ نہیں کیا گیا جس کو پورا کرنا انسان کے لیے مشکل یا ناممکن ہو یا نقصان دہ ہو۔ اسی لیے بار بار کہا گیا ہے کہ تمام مذاہب سے زیادہ آسان اور معقول مذہب اسلام ہے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات کا ثبوت ہر جگہ ملتا ہے کہ مسلمانوں نے قرآن و حدیث کی برکت سے ہی دنیا کے بڑے بڑے حکمرانوں کو اور سخت دل انسانوں کو فتح کرلیا۔ سب سے بڑی مثال تو ہمارے سامنے سیدنا عمر ؓ کی ہی موجود ہے کیسے پتھر دل انسان قرآنی آیات سن کر موم ہوگئے اور اسلام قبول کرلیا۔ قرآن پاک کی تعلیمات نے کیسے کیسے بلند پایہ سائنسدان ‘ ڈاکٹر ‘ ماہر فلکیات غرض ہر میدان میں مسلمان نمایاں ‘ کامیاب اور قابل رشک شخصیات کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں پیدا کیے ہیں۔ یہ اس آسان مذہب کی ہی برکات تھیں کہ عرب کے بدو دنیا کے سردار بنے۔ اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ آج بہترین معبود الہ العلمین بہترین رسول سیدنا محمد ﷺ بہترین کتاب قرآن پاک اور بہترین امت ‘ امت محمدیہ ہے۔ کیوں نہ ہو اللہ ہی مالک و خالق ہے ہر ظاہر چھپی ہوئی اور ہونے والی بات سے وہ واقف ہے اسی لیے رسول اور کتاب کے ذریعہ سے تمام لوگوں کو آنے والے وقت کے بارے میں خوب وضاحت سے بتا دیا گیا ہے کہ جو رسول کو جھٹلاتے ہیں مال و اولاد میں مست ہو کر اللہ رسول اور اس کے احکامات سے منہ موڑتے ہیں۔ ان کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا ایک ایک عمل اللہ کے کمپیوٹر میں باقاعدہ موجود ہے اور جب ان کو بدلہ دیا جائے گا جو کہ ضرور دیا جائے گا تو پھر وہ واویلا مچائیں گے جو کہ بےکار ہوگا۔ کیونکہ وہ تو صرف رزلٹ کا وقت ہوگا امتحان دینے کا پرچہ حل کرنے کا وقت تو دنیا کی زندگی ہے جو گزر چکی ہوگی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مصیبت اور راحت میں اللہ کا شکر اور ذکر کرو۔ کیونکہ جب ” ہم ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تب وہ ناامید ہوجائیں گے۔ “ (77 آیت) اسی لیے تو کہتے ہیں کہ موت کی آرزو نہ کرو مگر موت کو ہر وقت یا درکھو۔ الٰہی ! ہمارے دلوں کو پرہیزگاری دے ‘ ہمارے دلوں کو پاک کر دے ‘ تو ہی سب سے بڑھ کر انہیں پاک بنا سکتا ہے اور تو ہی ہماری جانوں کا والیو کار ساز ہے۔ یا اللہ تو ہمیں ان تمام گمراہیوں سے بچائے رکھنا جن میں کفار مکہ ڈوب چکے تھے۔ دراصل سرکش ‘ ہٹ دھرم اور نافرمان لوگ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں آج کا زمانہ بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں۔ جس طرح اہل مکہ شرک کرتے تھے آج کے نام نہاد مسلمان بھی شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں، عرب کے مشرکین بتوں کو پوجتے تھے آج کے مشرک قبروں اور مزاروں کو پوجتے ہیں جو سب کچھ جانتے ہیں مانتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں مگر ایمان نہیں لاتے تو ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اور ایسے لوگ واقعی بڑے بدنصیب لوگ ہوتے ہیں۔ حالانکہ صرف اپنے اعضا کو ہی اگر ہم غور سے دیکھیں تو اللہ کی ربوبیت اور توحید سمجھ میں آسکتی ہے۔
Top