Mafhoom-ul-Quran - Al-Furqaan : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
اور اللہ بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں آفتاب کا نہایت روشن چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔
آسمانوں کے انتظام ‘ نیک لوگوں کی صفات اور انعام تشریح : یہاں بھی کفار کو اللہ رحمن و رحیم کی کچھ اور مہربانیاں بتائی جا رہی ہیں جو خالصتاً اس وقت کے عرب بدئوں کے معیار کے مطابق بات کی جا رہی ہے۔ گو کہ اس میں بھی افلاک کے بہت سے رازوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اس وقت یعنی ساتویں صدی کے آغاز کا عرب بدو اپنی تہذیب ‘ زبان ‘ تشبیہ اور ثقافت کے معیار سے ہی بات سمجھ سکتا تھا کیونکہ قرآن کا سب سے پہلا مخاطب وہی عرب بدو تھا۔ لہٰذا رب ذوالجلال انہی کی زبان میں فرماتا ہے کہ ” بڑی بابرکت ہے اس کی ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور پھر سورج کا روشن چراغ رکھ دیا اور چاند کا اجالا کردیا۔ اور وہی ہے جس نے رات دن بنائے آگے پیچھے آنے والے اس شخص کے واسطے جو دھیان رکھنا چاہے یا شکر کرنا چاہیے۔ (الفرقان آیت :62 - 61) اب ان کی وضاحت ایک عالم افلاک اپنی علمیت کی روشنی میں کرتا ہے۔ مطلب دونوں کا یہ ہے کہ عام آدمی اللہ کی اس بنائی ہوئی تنظیم کو دیکھ کر اللہ کی توحید کا قائل ہو کر اسی کی عبادت میں جھک جائے اور اسی طرح ایک عالم و فاضل اللہ کی بنائی ہوئی اس تنظیم کو سمجھ کر اس کے سامنے جھک جائے اور دونوں ہی شکر بجا لائیں اور اس کے نیک بندے بن کر بہترین انعامات حاصل کریں جو دنیا میں بھی ملتے ہیں اور آخرت میں بھی ملیں گے۔ یہ سب کچھ اللہ نے بندوں کے فائدے کے لیے بنایا ہے ‘ اور نجات کے لیے قرآن نازل فرمایا اور رسول ﷺ کو مبعوث کیا ہے۔ ورنہ بندوں کی عبادت گزاری اور نیکی اللہ کے کسی فائدے کی بات نہیں۔ اللہ کے مقبول اور نیک بندوں کی صفات یہ ہیں : (1) ان کی چال میں وقار اور نیکی پائی جاتی ہے۔ (2) برے لوگوں کے ساتھ نرمی ‘ عقل اور حکمت سے بات کرتے ہیں۔ (3) راتوں کو رکوع و سجود کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ (4) اللہ سے ہر وقت مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (5) نہ وہ فضول خرچ ہوتے ہیں نہ بخیل ہوتے ہیں۔ (6) اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ (7) کسی کو بغیر وجہ ‘ قانون شکنی کرتے ہوئے قتل نہیں کرتے۔ (8) بدکاری اور ہر قسم کی بےحیائی سے دور رہتے ہیں۔ جو لوگ ان صفات کو اپنی زندگی میں پیدا نہیں کرتے وہ بیشک دگنا عذاب بھگتیں گے۔ ایک تو کفر و شرک کا اور ایک گنہگاروں کی زندگی گزارنے کا یعنی ہر برے عمل کا بدلہ علیحدہ علیحدہ دیا جائے گا اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دیا جائے گا۔ جب کہ ایمان لانے والوں اور توبہ کرنے والوں کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے اور اگر کوئی گناہ اس سے ہو بھی جائے تو اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اس کو معاف کردیا جائے گا یا اگر کوئی ایسا گناہ کہ جس کے لیے اس نے توبہ نہ کی ہو تو پھر صرف اسی کی سزا ملے گی اور جہنم سے یا سزا سے نکال دیا جائے گا۔ نیک لوگوں کی اور بھی صفات بیان کی جارہی ہے۔ (1) جھوٹ کبھی نہیں بولتے اور نہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں کہ یہ تمام عیوب کی جڑ ہے۔ (2) تقویٰ اور نیکی میں سب سے سبقت لے جانے کی دعا اور کوشش کرتے ہیں۔ (3) ہر صورت صبر سے کام لیتے ہیں۔ ” کیونکہ مصیبت ہلاکت کے لیے نہیں بلکہ آزمائش کے لیے ہوتی ہے۔ “ (قول سیدنا امام جعفر صادق (رح) ) (4) کلام الٰہی کو غور سے سنتے ہیں ‘ عمل کرتے ہیں اور ہر وقت دعائیں کرتے ہیں۔ کہ ” ہمیں متقی اور نیک لوگوں کا امام اور پیشوا بنا دے۔ “ (الفرقان آیت : 74 ) یہی لوگ مقبول الٰہی ہیں اور انہی کے لیے اللہ فرماتا ہے۔” ان صفات کے لوگوں کو صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیے جائیں گے اور وہاں فرشتے ان سے دعا وسلام کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ ٹھہرنے اور رہنے کی بڑی عمدہ جگہ ہے۔ “ (الفرقان آیات 76 - 75 - 74 ) پھر آخر میں نبی اکرم ﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں سے فرمادیں : ” اگر تم اللہ کو نہیں پکارتے تو میرا پروردگار بھی تمہاری کچھ پرواہ نہیں کرتا۔ تم نے جھٹلایا ہے تو اس کی سزا تمہارے لیے ضرور ہوگی۔ (الفرقان آیت : 77 ) الحمدللہ سورة الفرقان مکمل ہوئی جیسا کہ تمام سورتیں ایک سے ایک بڑھ کر ہیں یہ سورت بھی توحید ‘ رسالت اور آخرت کے سبق سے بھری ہوئی ہے اور آداب و اخلاق کے وہ تمام اصول دلیلوں کے ساتھ بتائے گئے ہیں جو انسان کو انسان اور مسلمان کو پکا مسلمان اور مقبول الٰہی انسان بنا سکتے ہیں۔ اللہ کی صفات نبی کی صفات قرآن کی برکات اور نیک و بد انسان کی صفات اور ان کے سزا و جزا کا ذکر بڑی ہی وضاحت سے کیا گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک جاہل اور عالم کو اللہ کا راستہ دکھانے کے لیے بےحد مفید ‘ آسان اور ضروری ہیں۔ دعا : ” اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ “ ترجمہ : اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ (آمین)
Top