بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طٰسۗمّۗ
قرآن روشن کتاب ہے تشریح : ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب ” کتاب “ کی تعریف یوں کرتے ہیں۔ -1 ” جس کے پانے سے تمام خیروکمال وابستہ ہوں۔ -2 تصورِ کائنات موجودہ حالات ماضی حال اور مستقبل کے احکامات کا وہ جائزہ جس کی بنیاد پر نصب العین کا حصول ‘ معیار کا تعین ہو۔ -3 وہ مقام یا حیثیت جس کے حوالے کے بغیر اعمال کا موازنہ (جانچنا) اور تخمینہ مقصود نہ ہو سکے۔ -4 وہ عمل جسے اتمام (تکمیل) تک پہنچانے پر کوئی جماعت مأمور ہو۔ -5 لائحہ عمل پہلے سے ترتیب دیا ہوا فرائض و اعمال کا وہ گوشوارہ جو اپنے اندر مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کی ضمانت رکھتا ہو۔ -6 معیار وہ نمونہ کمال یا اصول جس کے حوالے سے ہر عمل کو پرکھا جائے اور بہتر سے بہتر بنایا جاسکے اور جس کی مطابقت میں عمل کے ڈھلنے سے ” فضائل “ واقعہ بن سکیں۔ “ مزید لکھتے ہیں کہ ” اس کتاب کا مسئلہ یہ ہے کہ فرد اور معاشرے کو جس نمونے پر ڈھلنا چاہیے وہ کیونکر ڈھلے ؟ کتاب کی احتیاج (ضرورت) فرد اور معاشرے کو لاحق ہے۔ کتاب سے یہ مسئلہ حل نہ ہو تو زندگی کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔ زندگی کے تقاضے پورے نہ ہوں تو کتاب ہدایت مقصود نہیں ہوسکتی۔ کتاب سے ہم اپنی جستجو اس سوال تک محدود رکھیں کہ دین کیا ہے ؟ تو اس سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی اور ہماری جستجو یہ نہ ہو کہ ہماری زندگی کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے جن میں ہماری معیشت اور سیاست کا معاندین کی گرفت سے آزاد ہونا بھی داخل ہے ‘ (موجودہ ماحول حکمران اور ان کے وضع کردہ قانون اصول) تو پھر زندگی کا لا دینی نظام ڈھلا رہنا ناگزیر (ضروری) رہے گا۔ جب تک ہم کسی منہاج کے مطابق قرآن مجید سے یہ اخذ نہ کرسکیں کہ غایت کیا ہے ؟ دعوتِ کائنات کیا ہے ؟ زاویہ نگاہ کیا ہے ؟ (غرض وغایت) دعوت کیا ہے ؟ (اسلام کی طرف بلانا) لائحہ عمل اور معیار کیا ہے ؟ زندگی کے لادینی نظام سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ جب تک حصول مقصد میں بےیقینی ہوگی اور مقصد کا شعور نہ ہوگا تو غلط روی کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ “ مضامین قرآن کے بارے میں مزید لکھتے ہیں۔ ” غیب سے مراد اللہ تعالیٰ ‘ ملائکہ ‘ آخرت ‘ حشر و نشر ‘ جنت دوزخ ‘ جزا اور سزا سے حیات کامرانی مراد ہے۔ “ (از قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل) اس حیات کامرانی کے حصول کے لیے یقین اور اللہ کی مدد کا حصول بہت ضروری ہے۔ رسول کی راہنمائی اور اس پر یقین کامل ایمان کی پختگی اور قرآن کی روشنی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے مگر آنحضرت ﷺ کی پریشانی پر اللہ تعالیٰ ان کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں (یہ تضاد کا اصول ہر محنت کرنے والے کے لیے ہے) کہ آپ ان لوگوں کی نفرت نافرمانی اور گمراہی سے بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اللہ جانتا ہے آپ کس خلوص ‘ محنت اور کوشش سے یہ کام کر رہے ہیں۔ یہ میری حکمت میں شامل ہے۔ اور یہ کائناتی قانون ہے کہ ہر نشوونما تضاد کے قانون کے تحت چل رہی ہے۔ جیسا کہ قرآن ان دو گروہوں کی نشاندہی یوں کرتا ہے۔ آدم ‘ ابلیس، اہل جنت ‘ اہل جہنم، اصحاب حق ‘ اصحاب باطل تو ثابت ہوا کہ مخالف فریق کے بغیر نشوونما ممکن نہیں اسی لیے ہر انسان کے مقابلہ میں شیطان ہے اور ہر پیغمبر کے مقابلہ میں دشمن ہیں۔ تو یہ تضاد اور مخالفت نشوونما اور ترقی و کامیابی کا ایک ضروری حصہ ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتے ہوئے اپنی مدد اور کامیابی کی بشارت بھی دیتا ہے۔ یہی مضمون سورة کہف کی آیت 6 میں ہوچکا ہے سورة فاطر میں آیت 8 میں بھی آئے گا۔ تو آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو آپ کو جھٹلاتے ہیں وہ عنقریب اپنا انجام دیکھ لیں گے۔ ” پس یہ تو جھٹلا چکے اب ان کو اس بات کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ “ آیت 6 ۔ یہ انجام بد ان کے سامنے کئی صورتوں میں آسکتا ہے۔ یعنی حق کی فتح کی صورت میں بھی ان کو ناکامی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے یا پھر عذاب کی صورت میں وہ اپنا انجام بد دیکھیں گے۔ بہرحال ان کا انجام برا ہی ہوگا اور پھر اس وقت عمل اور توبہ کا وقت گزر چکا ہوگا اور سوائے افسوس کے کچھ نہ ہو سکے گا۔
Top