Mafhoom-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور یہ قرآن اللہ رب العلمین کا اتارا ہوا ہے۔
قرآن کا عربی میں نزول اور عربی زبان کے گمراہ شعراء کا رد تشریح : قرآن کی حقانیت ‘ افادیت اور حفاظت کا ذکر ہوچکا اور یہ بھی کہ یہ عربی زبان میں ہی کیوں اترا ؟ اس کے بارے میں مزید یہ کہ جہاں عربوں میں بہت سی برائیاں تھیں کچھ اچھائیاں بھی تھیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی زبان ” عربی “ کی بےحد حفاظت کرتے تھے۔ اسی لیے عربی زبان بےحد وسیع ‘ جامع اور غیر متبدل (تبدیل نہ ہونے والی) زبان ہے۔ جبکہ باقی تمام زبانیں اپنی اصل سے بہت زیادہ ہٹ چکی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کو صاف طور پر احکامات سنائے گئے ہیں اور ان کو اللہ کی ذات جو کہ بےحد مہربان ہے پر پورا بھروسہ رکھنے اور نیکی پر ڈٹے رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ شیطان کی پرزور مذمت کی گئی ہے اور شاعروں کو بھی قابل مذمت کہا گیا ہے سوائے ایسے شاعروں کے جن میں یہ چار صفات موجود ہوں۔ (1) وہ جو ایمان لے آئیں۔ (2) اور نیک عمل کرنے والے ہوں۔ (3) اللہ کو یاد کرنے والے ہوں۔ (4) کسی پر زیادتی کرنے والے نہ ہوں۔ ایسے شاعروں پر تو اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور وہ اچھا کلام کہتے ہیں ورنہ تو شاعر کے قول اور عمل میں تضاد ہوتا ہے جو انسانیت کے بالکل خلاف ہے۔ ضمیر کی آواز پر دھیان نہ دے کر جو دنیا کی آلائشوں میں گم ہوجاتے ہیں وہ گویا خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ” اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔ “ (الشعرا آیت : 227 ) سورت شعرا بفضل اللہ مکمل ہوئی۔ الحمدللہ یہ پوری سورت شیطان اور انسان کی جنگ میں ہے۔ جو شیطان سے جیت گیا وہ مقبول الٰہی ہوا اور آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کا وارث ہوا اور جو ہار گیا وہ شیطان کا ساتھی بن گیا اور آخرت کی ہمیشہ رہنے والی سزائوں کا مستحق ہوا۔
Top