بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - An-Naml : 1
طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِیْنٍۙ
طٰسٓ : طا۔ سین تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْقُرْاٰنِ : قرآن وَكِتَابٍ : اور کتاب مُّبِيْنٍ : روشن واضح
طٰسۗ۔ یہ قرآن اور کتاب روشن کی آیتیں ہیں
قرآن مجید کے اوصاف، ایمانداروں اور کفار کا تذکرہ تشریح : جیسا کہ پہلے بھی کئی مرتبہ قرآن پاک کی صفات بیان کی جا چکی ہیں۔ بہرحال اسلام کی یہ مقدس کتاب قرآن مجید تمام آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ ممتاز اور بہترین ہے۔ کیونکہ یہ تاقیامت پوری کائنات اور مخلوقات کے لیے مکمل آئین ہے۔ اس کے ذریعہ ہم ماضی حال اور مستقبل کو بڑی آسانی سے دیکھ سکتے ہیں اور پھر یہ سائنسی حقائق کا سرچشمہ بھی ہے۔ مسلم سائنس دانوں نے جس قدر ایجادات کی ہیں جو کہ بیشمار ہیں سب کی بنیاد قرآن پاک کی مختلف آیات ہی پر ہے۔ سائنس کی بنیاد سچ ہے اور قرآن پاک پورے کا پورا سچ ہے۔ اس کی ہر آیت اتنی جامع اور آسان ہے کہ بدو ہو یا عالم دونوں کی ذہانت کے مطابق مطلب واضح ہوجاتا ہے۔ مثلاً دن اور رات کا بدلنا۔ بدو اور جاہل انسان اس سے کام اور آرام پھر دن تاریخ اور مہینے کا تعین کرتا ہے جبکہ ایک عالم فاضل سائنسدان دن رات کے ردو بدل سے بیشمار سائنسی نکات نکال لیتا ہے مثلاً سورج چاند اور زمین کا فاصلہ اور ان کا عمل اور ان کے وہ تمام اثرات جو انسان حاصل کرتا ہے۔ اور پھر ان کی بنیاد پر کئی ایجادات کرلی گئیں جو لوگوں کی سہولت اور آسانی کا باعث بنتی ہیں۔ یوں کہنا درست ہے کہ قرآن کی ہدایت مومنین کے لیے بشارت اور ہدایات کا مجموعہ ہے۔ مومن کی تعریف اللہ رب العزت یوں فرماتا ہے کہ وہ نماز ‘ زکوٰۃ اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق خوشدلی اور باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتا ہے اور پھر آخرت پر مکمل طور پر یقین رکھتا ہے۔ آخرت پر یقین اصل میں انسان کو بہترین انسان بناتا ہے۔ جب تک ایک طالب علم کو یہ یقین نہ ہو کہ جو کچھ وہ پڑھ رہا ہے اس کا نتیجہ اس کو ملے گا اور پھر اسی نتیجہ پر اس کی آئندہ زندگی کی ترقیوں اور کامیابیوں کا انحصار ہے۔ اس وقت تک اس محنت ‘ توجہ اور کوشش میں وہ زور پیدا نہیں ہوسکتا جس کی اس کو اصل میں ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہمیں پتہ ہے کہ یہ دنیا عمل کرنے کی عارضی جگہ ہے مگر وقت بہت قیمتی ہے جیسے ہی یہ وقت ختم ہوگا ہم دنیا کو چھوڑ کر اپنے اعمال کے ساتھ عالم برزخ میں چلے جائیں گے پھر حساب کے دن اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔ پھر اپنے کیے ہوئے اعمال کے مطابق ہمیشہ کے لیے یا جنت ملے گی یا دوزخ۔ ایسے میں کون بیوقوف ہوگا جو نیکی کے راستہ کو چھوڑ کر شیطان کی راہ پر چلے گا۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کی نعمت ان کو دی گئی ہے جو ایمان لاتے ہیں۔ بیشک یہ بہت بڑی نعمت اللہ کی طرف سے انسان کو دی گئی ہے۔ اس اللہ کی طرف سے جو بڑی حکمت والا بھی ہے اور بہت زیادہ علم والا بھی ہے۔ اس کی حکمت اور اس کا علم کائنات کے ذرے ذرے میں دکھائی دیتا ہے۔ بس اس کو دیکھنے ‘ پرکھنے کے لیے نظر کی ضرورت ہے اور خلوص کی ضرورت ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ؎ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق (علامہ ڈاکٹر اقبال)
Top