Mafhoom-ul-Quran - Al-Qasas : 22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَمَّا : اور جب تَوَجَّهَ : اس نے رخ کیا تِلْقَآءَ : طرف مَدْيَنَ : مدین قَالَ : کہا عَسٰى : امید ہے رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ يَّهْدِيَنِيْ : کہ مجھے دکھائے سَوَآءَ السَّبِيْلِ : سیدھا راستہ
اور جب مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے ” امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا رستہ بتائے۔
تشریح : سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) فرعون اور ہامان کا واقعہ پہلے موقع کی مناسبت سے بیان کیا جا چکا ہے یہاں پھر اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ واقعہ آپ کی زبانی اہل مکہ کو سنایا گیا تاکہ اس بات کی تصدیق ہوجائے کہ آپ واقعی اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ پر اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعہ تمام حالات گزری ہوئی قوموں کے نازل ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس وقت نہ تو تاریخی کتابیں تھیں اور پھر آپ تو تھے بھی امی۔ یہ واقعہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا جس خوبصورت اور وضاحت سے آپ نے بیان کیا ہے حالانکہ نہ تو آپ اس وقت وہاں موجود تھے اور نہ ہی کسی سے آپ کو یہ تمام معلومات اتنی سچی اور پکی مل سکتی تھیں۔ کیونکہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ آپ سے صدیوں پہلے گزر چکا تھا۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی رحلت کے بعد بیشمار نسلیں آئیں اور گئیں جو کتاب تورات آپ پر نازل ہوئی تھی کچھ مدت طویل گزرنے سے اور دنیاطلب لوگوں کی بدنیتی اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے مضامین کے لحاظ سے کافی حد تک بدل دی گئی تھی یا ختم کردی گئی تھی یہاں تک کہ تورات میں آخری نبی ﷺ کی آمد کا جو ذکر کیا گیا تھا وہ بھی لوگوں کے ذہنوں سے بالکل مٹ چکا تھا۔ تو ایسے حالات میں یہ واقعہ جو آپ لوگوں کو پوری صحت کے ساتھ سنا رہے ہیں یہ سوائے وحی یعنی اللہ کی رہبری کے آپ کیسے سنا سکتے تھے تو یہ بھی آپ کے نبی ہونے کی ایک روشن دلیل ہے۔ اور پھر آیت :46 میں یہی وضاحت کی گئی ہے کہ یعنی اللہ نے آپ کو اس قوم کی طرف بھیجا ہے جس میں مدت سے کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ ہدایت نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی بلکہ ہر طرف جہالت ‘ کفر ‘ شرک اور بدامنی کی فضا پھیلی ہوئی تھی۔ تو سیدنا محمد ﷺ کو اللہ نے اس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا تاکہ لوگوں کو ہدایت دیں اور ان کو حق و باطل کی پہچان کروائیں دوزخ سے ڈرائیں اور جنت کی خوشخبری دیں۔
Top