Mafhoom-ul-Quran - Al-Ankaboot : 36
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ۙ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَ : اور اِلٰى مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب کو فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَارْجُوا : اور امید وار رہو الْيَوْمَ الْاٰخِرَ : آخرت کا دن وَ : اور لَا تَعْثَوْا : نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرتے ہوئے (مچاتے)
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا ” اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو اور آخرت کے دن کے آنے کی امید رکھو اور ملک میں فساد نہ مچائو۔
عبرت کے نشان قوم عاد، ثمود، فرعون، ہامان، قارون تشریح : الاعراف ‘ ھود ‘ شعراء اور کئی سورتوں میں ان کا ذکر آچکا ہے۔ یہاں مختصراً دوبارہ ان قوموں کا ذکر کیا جا رہا ہے صرف اس حوالے سے کہ لوگ یہ اچھی طرح سمجھ جائیں کہ وہ قادر مطلق اپنی مخلوق سے بہت پیار کرتا ہے اسی لیے اچھے برے کی پہچان واضح کرنے کے لیے نبی بھیجتا رہا مگر اکثر قومیں اس قدر بگڑ چکی تھیں کہ اللہ کو پہچان کر بھی اللہ کی راہ اختیار کرنے کو تیار نہ تھیں اور اس طرح انہوں نے خود اپنے لیے تباہی و بربادی اور عذاب کے اسباب بنائے۔ مثلاً عاد کی قوم ‘ قوم ثمود ‘ مدین والے، ہامان ‘ فرعون وغیرہ یہ سب اپنے زمانے کی مانی ہوئی طاقتور قومیں تھیں مگر اللہ کی پہچان سے خود کو دور رکھنے والے لوگ تھے اس لیے انہوں نے خود اپنے لیے اللہ کی ناراضگی مول لی جس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک حد تک تو ان کو ڈھیل دی گئی مگر بالآخر ان پر مختلف قسم کے عذاب آتے چلے گئے اور دنیا کو گناہوں اور گندگیوں سے برابر صاف کیا جاتا رہا۔ اس طرح کی سزائیں آج بھی قوموں کو اپنے برے اعمال کے بدلے میں وقتاً فوقتاً ملتی رہتی ہیں۔ مگر انسان ان کو قدرتی آفات سمجھ کر ٹال دیتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کو ان کے اپنے ہی اعمال اور غلطیوں کی وجہ سے مصیبتوں ‘ بیماریوں اور بےچینیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً بےحیائی ‘ بےراہ روی بےغیرتی اور غیر فطری عمل کو اپنا کر دنیا کے بیشتر حصوں میں ایڈز کی بیماری پھوٹ پڑی ہے۔ اسی طرح بیشمار عورت مرد ہم جنسی کے سبب خاندانی سکون سے محروم ہوچکے ہیں جن ملکوں میں ہم جنس کی شادیاں رواج پا چکی ہیں وہاں بیشمار ذہنی امراض سر اٹھا رہے ہیں۔ اسی طرح بغیر شادی کے عورت مرد کا ایک ساتھ رہنا بچے پیدا کرنا ‘ عورت ‘ مرد ‘ بچے اور پوری سوسائٹی عدم تحفظ کی شکار ہو کر بیشمار غیر قانونی کام کرنے لگتی ہے۔ تمام اخلاقی برائیاں یہاں سے پیدا ہونے لگتی ہیں۔ زنا ‘ جھوٹ ‘ قتل ‘ فساد اور بیشمار جسمانی اور روحانی بیماریاں خود انسان کے اپنے بنائے ہوئے غیر فطری قانون اور غیر فطری طرز زندگی سے پیدا ہوجاتے ہیں اور یوں خود اپنے ہاتھوں خود کو عذاب کا شکار بنا دیتے ہیں۔ پھر اللہ کی طرف سے دی گئی مہلت جب ختم ہوجاتی ہے تو قدرتی آفات جو آہستہ آہستہ ان کے بےراہروی کی وجہ سے تیار ہوتی رہتی ہیں یکدم ان پر عذاب کی صورت میں آپڑتی ہیں بالکل ایسے ہی جیسے پچھلی گزری ہوئی قوموں کے ساتھ ہوچکا ہے۔ ہمیں بھی ایسی ہی سزائیں ملتی رہتی ہیں۔ ہمیں ہوش کرنا چاہیے۔ ایک قوم جب تک اخلاقی بلندی اللہ کی رضا اور اس کے خوف کو اپنائے رکھتی ہے باعزت اور کامیاب ہوتی ہے۔ جونہی اللہ کی راہ سے منہ موڑتی ہے اللہ کے قانون کے مطابق آہستہ آہستہ تباہی کی طرف پہنچ جاتی ہے۔ قرآن پاک میں اس بات کی وضاحت بہت دفعہ موجود ہے کہ خرابی ایک انسان سے شروع ہو کر پوری سوسائٹی حتی کہ پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جس طرح ایک نبی ‘ رسول یا پیغمبر یا مرد مومن پوری قوم کو ہدایت دینے کا کام کرتا ہے اور نبی اکرم ﷺ تو پوری دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ان کا سبق ‘ مشن اور تبلیغ بھی وہی ہے جو تمام پیغمبر دیتے آئے ہیں۔ اور ان کو اس راستے میں بےپناہ دشواریاں پیش آتی رہیں۔ اور پھر حق کے مقابلہ میں باطل کا ہونا ضروری ہے۔ مگر حق مضبوط ‘ پائیدار اور کامیاب ہونے والا ہے جبکہ باطل کی حیثیت انتہائی کمزور مٹ جانے والی اور ناپائیدار ہے۔ جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے مکڑی کے گھر سے دی ہے۔ کہ ایک انگلی لگائو تو اس کا پورا گھر نابود ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ انتہائی چھوٹی چھوٹی کمزور مخلوقات کا ذکر قرآن پاک میں کیا ہے۔ ذرا ان کی تہہ میں جائیں تو انسان کے لیے بڑے بڑے سبق موجود ہیں۔ مثلاً نمل (چیونٹی) کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جونہی بچہ انڈے سے نکلتا ہے ماں اللہ کے حکم سے دو باتیں اس کے ذہن نشین کردیتی ہے۔ ایک باہمی اتفاق دوسرا سمت کی پہچان۔ ہم مائوں کو غور کرنا چاہیے کیا ہم اپنے بچوں کی تربیت اسی خلوص اور تندہی سے کر رہی ہیں ؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں زیادہ تر مائیں بچوں کی صحیح تربیت سے لاپرواہی برت رہی ہیں اور یہ بہت خطرناک کام ہے۔ اب ذرا مکڑی کی طرف غور سے دیکھتے ہیں۔ یہ انتہائی حقیر سا کیڑا ہے۔ جس کا گھر انتہائی ناپائیدار ہمارے خیال میں ہوتا ہے مگر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی ماہر تعمیرات ‘ ماہر فلکیات ماہر سائنسدان اس جیسا ایک دھاگہ بھی نہیں بنا سکتا۔ مکڑی کا گھر ترتیب ‘ حساب اور نمونے کے لحاظ سے حیرت انگیز کام ہے۔ یہ اصل میں مکڑی کے غدود سے رس کر نکلتا ہے جو ایک ایسا مادہ ہوتا ہے جس سے انتہائی باریک ریشمی دھاگہ بنتا ہے جس کو مکڑی انتہائی حسابی لحاظ سے اپنے اعصابی خلیات کی مدد سے حیرت انگیز طور پر ایک شاندار جالاتان دیتی ہے جو اپنی مثال آپ ہے اور کوئی بڑے سے بڑا ماہر تعمیرات بھی اس جالے کا ایک انچ بھی نہیں بنا سکتا۔ کیا یہ سب کچھ اللہ کی قدرت ‘ کمال اور وحدانیت کے جیتے جاگتے ثبوت نہیں ہیں ؟ حیرت ہوتی ہے ان مشرکوں پر جو اس معبود برحق سمیع وبصیر قادر مطلق کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی اور خود بنائے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ اور پھر اتنے مضبوط اور بھر پور طریقے سے اپنے ان بےمعنی معبودوں کو پوجتے ہیں کہ کوئی پیغمبر کوئی دلیل اور بات کوئی نشانی ان کو اللہ کی طرف نہیں پھیر سکتی تو پھر اس کو اندھا پن ہی کہ سکتے ہیں اور کیا کہیں۔ اللہ ہمیں شرک سے محفوظ فرمائے۔ (اٰمین)
Top