Mafhoom-ul-Quran - Al-Ankaboot : 56
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ
يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے اِنَّ : بیشک اَرْضِيْ : میری زمین وَاسِعَةٌ : وسیع فَاِيَّايَ : پس میری ہی فَاعْبُدُوْنِ : پس تم عبادت کرو
اے میرے بندو ! جو ایمان لائے ہو ‘ میری زمین فراخ ہے تو میری ہی عبادت کرو۔
مومنوں کے اوصاف اور ربوبیت الٰہی کے دلائل تشریح : ان آیات میں خوشخبری ان لوگوں کو دی گئی ہے جن میں صبر اور توکل ہو۔ یعنی ہر قسم کی آزمائش ‘ سختی اور مصیبت جو ان کو راہ خدا میں اٹھانی پڑے صبرو سکون سے برداشت کرتے ہوئے ایمان بااللہ پر قائم رہیں۔ اور پورا بھروسہ اللہ پر رکھیں ایمان کی حفاظت اور بقا کے لیے ان کو گھر بار ‘ جائیداد اور رشتہ دار عزیز بھی چھوڑنے پڑیں تو ہجرت ضرور کر جائیں یہ سنت ہے۔ اور جو اللہ کی محبت میں سب کچھ چھوڑ دیتا ہے وہ تو ویسے ہی اللہ کا مقبول ترین انسان بن جاتا ہے۔ جب کہ اللہ تو ویسے ہی بڑا مہربان اور رازق ہے کیونکہ وہ ہر کافر مشرک کو برابر رزق دیتا ہے۔ رزق دینا صرف اسی کا کام ہے۔ اس کے لیے اس نے کیسے کیسے بندوبست کر رکھے ہیں ؟ عقل حیران ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ ہر مخلوق کی ضروریات اور دعائوں کو ہر وقت سنتا ہے اور جانتا ہے۔ اس کو خوب معلوم ہے کہ کس کو کتنا رزق دینا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جانتا ہے یعنی ان کی نفسیات ‘ عادات کو جانتا ہے اس لیے رزق کی کمی اور زیادتی کی 2 وجوہات دکھائی دیتی ہیں۔ (1) یہ امتحان ہے جو کسی کا دولت کی کمی سے اور کسی کا دولت کی زیادتی سے لیا جاتا ہے۔ (2) بعض لوگوں کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ دولت کی زیادتی سے اس قدر مغرور اور مست ہوجاتے ہیں کہ شرک کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔ سرکشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جس طرح قارون سرکش ہو کر دین سے ہی پھر گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سرکشی اور شرو فساد سے بچانے کے لیے تین سخت ترین بندشیں بنا رکھی ہیں۔ (1) فقرو افلاس (2) امراض (3) موت۔ اس کے باوجود بھی انسان اللہ کو بھول کر سرکشی اختیار کرلیتا ہے۔ جبکہ عبادت ‘ ذکر اور شکر اللہ کے نیک بندوں کا کام ہے رزق ‘ لباس اور ٹھکانا اللہ کی ذمہ داری ہے۔ اس کے بارے میں محمد موسیٰ روحانی بازی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : ” داود (علیہ السلام) جلیل القدر نبی ہیں۔ ہر نبی و رسول کی دعائوں میں بڑی مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ “ تو داود (علیہ السلام) دعا کے وقت یہ کہتے تھے۔ ” اے کوے کے چھوٹے بچوں کو گھونسلے میں رزق دینے والے۔ “ یعنی اس دعا کی وجہ تخصیص (خاص وجہ) یہ ہے کہ کوا جب انڈوں کو بچے نکالنے کے لیے توڑتا ہے تو ابتداء میں وہ بچے سفید رنگ کے ہوتے ہیں سفید رنگ کی وجہ سے کوا ان سے متنفر ہو کر ان کی پرورش چھوڑ دیتا ہے۔ چناچہ کوے کے یہ بچے اپنی چونچیں کھول دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خاص قسم کی مکھیاں بھیج دیتے ہیں جو ان بچوں کے منہ میں داخل ہوتی رہتی ہیں ‘ یہی مکھیاں ان بچوں کی غذا بنتی رہتی ہیں تاآنکہ ان بچوں کا رنگ سیاہ ہوجاتا ہے اس کے بعد ادھر ان مکھیوں کا آنا بند ہوجاتا ہے ادھر کوا اپنے بچوں کی طرف لوٹ آتا ہے۔ اور ان کی پرورش شروع کردیتا ہے۔ “ بہرحال اللہ تعالیٰ کا نطام رزق بڑا عجیب و لطیف اور نہایت محکم ہے۔ “ (از گلستان قناعت مسمیٰ بہ جنۃ القنایہ) محمد موسیٰ روحانی بازی آیت :60 کی تشریح بڑے خوبصورت انداز سے کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ نے رزق کے بارے میں چند امور کا ذکر کیا ہے۔ (1) اپنی عظیم قدرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان کا خالق میں ہی ہوں۔ (2) شمس و قمر کو منور و مسخر کرنے والا بھی میں ہی ہوں۔ (3) کفار بھی اس بات کے معترف (ماننے والے) ہیں۔ (4) لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر یقین کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں کسی اور ذات کی طرف رجوع کرنا اور اپنے معاملات میں اس پر اعتماد کرنا بڑی غلطی ہے۔ (5) رزق کی فراخی اور تنگی بھی میرے قبضہ قدرت میں ہے۔ “ مزید لکھتے ہیں : ” دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ سنت پر چلنے کی اور لباس باطنی یعنی اعمال زندگی کو گناہوں اور لغزشوں سے پاک و صاف رکھنے کی توفیق بخشیں۔ “ آمین (از گلستان قناعت) کیونکہبالآخر تو اللہ کے پاس ہی واپس جانا ہے تو جو لوگ شکر اور توکل سے نیک زندگیاں گزارتے ہیں ان کے لیے خوشخبری ہے اللہ فرماتا ہے۔ ” ان کو ہم بہشت کے اونچے اونچے محلوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ “ (58 العنکبوت)
Top