Mafhoom-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں، رات اور دن کے باری باری آنے میں، ان ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں
آیات الٰہی میں غور و فکر تشریح : اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جب قریش نے رسول اللہ ﷺ سے معجزہ دکھانے کی خواہش کی اور کہا کہ آپ ﷺ اللہ سے دعا کریں کہ کوہ صفا سونے کا ہوجائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو ہم آپ ﷺ پر ایمان لے آئیں گے۔ آپ ﷺ نے دعا کی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر ابن کثیر) اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک، کائنات اور اس کی تمام چیزوں کے ذریعے یہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور وہی تمام کائنات کو چلانے والا ہے۔ اولی الالباب (عقل والے) اور ” عقل کو کام میں لانے والے۔ “ یہ الفاظ قرآن میں بیشمار دفعہ آئے ہیں تاکہ انسان کائنات کی پیدائش میں اور اس کے انتظام پر غور و فکر کرے اور اپنے لیے نئے نئے فائدے حاصل کرے۔ انسان اور حیوان میں علم، عقل اور غور و فکر کا ہی تو فرق ہے جو انسان کائنات کا علم نہیں رکھتا وہ اس کے خالق کو کیسے پہچان سکتا ہے ؟ پھر فرمایا : اللہ کا ذکر ہی فکر و تدبر کی طرف لے جاتا ہے جو لوگ ہر لمحہ اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں ان کے لیے سوچ اور دھیان کرنے کا ایک رخ بن جاتا ہے وہ آسمان و زمین کی پیدائش پر غور کرتے ہیں تو ان کو یہ یقین کرنا بڑا آسان ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقاً وجود میں نہیں آگیا بلکہ یہ اللہ رب العزت کی قدرت اور اس کی طاقت (کُنْ فَیَکُوْنُ ) ہوجا اور دنیا وجود میں آگئی کا معجزہ ہے۔ بھلا اتنی بڑی طاقت اور قدرت اللہ کے سوا کس میں ہوسکتی ہے ؟ تب انسان پکار اٹھتا ہے کہ ” اے ہمارے پروردگار ! تو نے یہ سب کچھ بےکار پیدا نہیں کیا بلکہ اس کائنات کی ایک ایک چیز انسان کے فائدہ کے لیے اور اس کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے “۔ انوارالقرآن میں وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے ” قرآن اور اسلام ہمیں اندھے عقیدے کی طرف نہیں بلاتے، اس لیے کہ یہ وہ کتاب نہیں جو سائنس کے حقائق سے ٹکرا جائے۔ سائنس مطالعہ فطرت کا نام ہے اور اسلام دین فطرت ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں جڑواں بہنیں ہیں یا پھر آپس میں لازم و ملزوم ہیں، اس لیے اسلام اور سائنس کے درمیان کہیں بھی ٹکراؤ موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بار بار غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ انسان اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اس غور و فکر میں اس کی پوری طرح راہنمائی کرنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تیری ذات کے کھوج میں بھٹک جائے جیسا کہ کئی سائنس دان بھٹک گئے یا اللہ ! ہمیں سچی لگن اور سیدھی راہ پر رکھنا تاکہ دوزخ کے عذاب سے بچ سکیں۔ کیونکہ سائنس دان تو ہر وقت تجربات میں لگے رہتے ہیں مگر گھوم پھر کر اللہ کی موجودگی کے ہی قائل ہوجاتے ہیں ” مثال کے طور پر نیوٹن نے کہا تھا کہ یہ اللہ کا طریق کار ہے وہ اسباب و علل (علامات) کے ذریعہ کائنات میں اپنی مرضی کو ظاہر کرتا رہتا ہے۔ مگر ملحد لوگوں نے اس سے یہ مطلب نکال لیا کہ کائنات ایک خود کار مشینی نظام ہے مگر بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی سائنس کے علم میں بہت سی ایسی حقیقتیں آگئیں جو کسی طرح بھی اس بات کا ثبوت نہ دیتی تھیں کہ کائنات ایک مشینی نظام کا نام ہے، مثلاً ریڈیم ایک تابکار عنصر ہے۔ اس کے الیکٹران خود بخود فطری عمل کے تحت مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اس تابکاری کا سبب کیا ہے بیشمار تجربے کئے گئے مگر ہر تجربہ ناکام رہا اسی طرح مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کیوں کھینچتا ہے ؟ اس لیے کہ اس کے خالق نے اس کو حکم دیا۔ طویل بحث مباحثہ کے بعد اب سائنس کی دنیا میں مان لیا گیا ہے کہ قانون تعلیل (خود کار نظام) کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ سائنس دان اب پلٹ کر اس بات پر آگئے ہیں کہ دنیا کا نظام نہ اتفاقی طور پر وجود میں آنے والا ہے اور نہ ہی کسی علت و معلول کے قانون کے تحت چل رہا ہے۔ بلکہ اس کے پیچھے ایک شعوری ذہن ہے جو اس کو چلا رہا ہے اور وہ ہے اللہ کی قدرت، اللہ کی طاقت۔ سائنس کی یہ واپسی مذہب کی صداقت کا ایک واضح ثبوت ہے، جس کے بعد کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں۔ “ (مذہب اور سائنس۔ مصنف مولانا وحید الدین خان۔ ) غور و فکر ہمارے مذہب اسلام کا بہت بڑا اعزاز ہے، عبادت ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس غور و فکر کو افضل عبادت فرمایا ہے۔ (تفسیرابن کثیر) اسی طرح حضرت سفیان بن عیینہ کا ارشاد ہے کہ غور و فکر ایک نور ہے جو تیرے دل میں داخل ہو رہا ہے۔ (فہم القرآن) حضرت وہب بن منبہ نے فرمایا : جب کوئی شخص کثرت سے غور و فکر کرے گا تو حقیقت سمجھ لے گا اس کو صحیح علم حاصل ہوجائے گا اور جس کو علم حاصل ہوگیا وہ ضرور عمل بھی کرے گا۔ “ (تفسیر ابن کثیر) غور و فکر سے ایمان کی مضبوطی اور اللہ رب العزت کی قربت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے بندہ اس سے دعا کرتا ہے کہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچائے رکھنا۔
Top