Mafhoom-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 197
مَتَاعٌ قَلِیْلٌ١۫ ثُمَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
مَتَاعٌ : فائدہ قَلِيْلٌ : تھوڑا ثُمَّ : پھر مَاْوٰىھُمْ : ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : دوزخ وَبِئْسَ : اور کتنا برا الْمِھَادُ : بچھونا ( آرام کرنا)
برعکس اس کے جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان باغات میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ کی طرف سے یہ ان کیلئے بہترین زندگی کے سامان ہوں گے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کیلئے وہی سب سے بہتر ہے
کافر اور مومن کے انجام کا مقابلہ تشریح : ان آیات کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے یہ پوری سورة ٔآل عمران کا خلاصہ ہے۔ کیونکہ اس میں نیک و بد انسان کی تعریف بیان کرنے کے بعد ان کے اجر وثواب، یعنی سزا و جزا کو خوب کھول کر بتا دیا گیا ہے اور آخر میں اللہ رب العزت دوبارہ مومنوں کو خوشخبری دیتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ ہر عمل کرتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے بلکہ تمہاری نیتوں کو بھی اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتا ہے۔ اللہ سے ڈرنے میں وہ محبت اور شفقت چھپی ہوئی ہے جو بیان سے باہر ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ماں کا پیار اللہ رب العزت کے پیار، مہربانی، شفقت، کرم، محبت، خلوص اور انتہائی ناقابل بیان محبت کا ایک ہلکا سا نشان ہے، یعنی اللہ نے جس طریقے پر انسان کو پیدا کیا ہے وہ تو یہی ہے کہ اللہ نے اس کو پیدا کیا اس کی پرورش کے تمام ذریعے اس کے لیے پیدا کئے تو پھر کسی بھی شخص کو یہ کیسے خیال آسکتا ہے کہ وہ اپنے اتنے مہربان رب کو چھوڑ کر کسی اور کے آگے جھکے ؟ وہ تو ہر انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب رہتا ہے جب ہم کسی بھی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو ہم اسی کو پکارتے ہیں وہی ہمیں مصیبت سے نجات دیتا ہے ہم انسان اس کے ساتھ اس قدر بےتکلف ہیں کہ ہم اس کے لیے تو کا لفظ استعمال کرتے ہیں وہ ہماری اس بےتکلفی سے خوش ہوتا ہے اسی لیے تو ہم ہر وقت اس خیال میں یا اس ڈر میں رہتے ہیں کہ کہیں ہم سے کوئی ایسی غلطی نہ ہوجائے کہ ہمارا رب ہمارا مہربان ہم سے ناراض ہوجائے اور یوں ہم بےیارو مددگار ہوجائیں اور یوں دنیا و آخرت میں بھٹکتے پھریں۔ اللہ ہمیں اپنی ناراضگی سے محفوظ رکھے اور اپنی مہربانیوں کے سائے میں دنیاو آخرت کی بہترین زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ مومن کوئی ایسا کام کرے جسے اللہ نے حرام کیا ہو۔ “ (صحیح بخاری) خلاصہ سورة ٔآل عمران سورة آل عمران کے شروع میں یہ بتایا گیا کہ اللہ ایک ہے وہ زندہ ہے اور سب اسی کی مہربانی سے قائم و زندہ ہیں، پھر انسان کو تعلیم و ہدایت دینے کیلئے اس نے ایک آخری کتاب نازل کی، یعنی قرآن اور اس کتاب، یعنی قرآن مجید کو سمجھانے کیلئے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو بھیجا۔ یہ کتاب اور جن پر یہ کتاب نازل ہوئی یعنی حضرت محمد ﷺ پوری دنیا کے لیے ہدایت کا پیغام ہیں۔ پھربتایا گیا کہ دنیا تو صرف آزمائش کا گھر ہے یہاں بیشمار ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو مذہب اور اللہ سے دور کرسکتی ہیں، یعنی بیوی، بچے، مال و دولت، عزت و شوکت، عیش و آرام اور سونے چاندی کے ڈھیر۔ یہی سبق دیا گیا ہے کہ یہ تمام دنیاوی چیزیں بالکل عارضی ہیں ہر وقت دھیان اس زندگی کی طرف رکھنا چاہیے جو ہمیشہ کی زندگی ہے اور موت کے بعد شروع ہوتی ہے وہاں یہ سب دنیاوی چیزیں ہرگز کام نہیں آئیں گی بلکہ صرف اعمال کام آئیں گے، اس لیے ان تمام چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے قرآنی قانون اور نبی ﷺ کے فرامین سامنے رکھنے چاہئیں تب جنت ملے گی۔ اس کے بعد حضرت مریم (علیہا السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش، ان کے معجزت، ان کی تعلیمات اور عیسائیوں کے حالات تفصیل سے بیان کئے گئے، پھر آنحضرت ﷺ کا آنا، قرآن مجید اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بتایا گیا۔ پھر غزوہ بدر میں کامیابی کا معجزہ، سود کی ممانعت اور احکامات کا بیان ہے پھر غزوہ احد کا ذکر اور اس سے بیشمار مسائل کا بیان خوب تفصیل سے بتایا گیا۔ آخر میں مسلمانوں کو ہدایت فرمائی گئی کہ یہود و نصارٰی کی زندگی کے اصول ہرگز نہ اپنائیں بلکہ صبر، سکون اور پورے خلوص و یقین سے ہر وقت اللہ رب العزت سے دعا کریں۔ دعا کا طریقہ بتایا گیا اور یہی حکم دیا گیا کہ نیکی کا راستہ ہی بہترین راستہ ہے اور جنت کی طرف یہی راستہ جاتا ہے۔ دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے رہو۔ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور کسی سے مت ڈرو۔ علامہ اقبال نے مسلمان کی تعریف یوں کی ہے۔ یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
Top