بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے پیغمبر اللہ سے ڈرتے رہنا اور کفار و منافقین کا کہا نہ ماننا، بیشک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے
سورت کے چار اہم نکات تشریح : جو احکامات ان آیات میں نبی اکرم ﷺ کو دیے جا رہے ہیں ان پر آنحضرت ﷺ تو پہلے ہی بڑی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ اصل میں یہ احکامات انسانی زندگی کی اصلاح اور معاشرے کی بہبود کے لیے اس قدر ضروری اور اہم ہیں کہ ان کو تاکید کی شکل دینے کے لیے دہرایا گیا ہے۔ اور نبی ﷺ کو مخاطب کر کے حکم دینے کا مطلب یہی ہے کہ تمام انسان ان احکامات کو غور سے سنیں اور ہمیشہ ان پر سختی سے عمل کریں۔ پہلا حکم : ” اللہ سے ڈرتے رہو “۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس قدر عظیم و کبیر، حکمت والا اور طاقت والا ہے کہ تمام کائنات اسی کی پیدا کی ہوئی اسی کے حکم سے چل رہی ہے اور اسی کے حکم سے ختم ہوجائے گی۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف اللہ کے ہی اختیار میں ہے اور وہ وحدہ لاشریک لہ ہے۔ اس لیے اس کے سوا کسی سے مت ڈرو۔ ایمان کی سب سے پہلی شرط ہی یہ ہے کہ ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں “۔ اس لیے ڈرنا ہے تو صرف اس سے ڈرو۔ اس سے انسان میں خود اعتمادی، خود داری اور ایمان کی مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ جو شخص ا ﷲسے بےنیاز ہوجائے وہ دل کی تنگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ دوسرا حکم : ” کفار اور منافقوں کا کہا نہ مانا جائے “۔ جب ایک شخص اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے تو پھر کفار و منافقین اس کے سامنے ہرگز کوئی حقیقت نہیں رکھتے، لہذا ان کا کہنا ماننا تو ناممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن کیونکہ ہر شخص کے ساتھ ایک کمزور نفس شیطان کی صورت میں ہمیشہ موجود رہتا ہے اس لیے تاکید کی گئی ہے کہ خبردار دیکھو کبھی شیطان کے کہنے میں آکر کفار و منافقین کے کہنے میں نہ آجانا۔ یہ حکم تمام انسانوں کے لیے ہے۔ تیسرا حکم : ” جو آپ پر وحی کی گئی ہے اس کی اطاعت کیجئے “۔ یہ حکم بھی بظاہر نبی اکرم ﷺ کو ہی دیا گیا ہے لیکن اصل میں یہ تمام انسانوں، مسلمانوں کے لیے لازم ہے قرآن پاک وحی کے ذریعے آپ ﷺ پر نازل کیا گیا۔ قرآن پاک بہترین ہدایت، علم اور عرفان کی کتاب ہے اس میں انسان کو اس کی حقیقت اور دنیا کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ مولانا وحید الدین خان صاحب اس کی تشریح بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں ملاحظہ ہو۔ ” یہ دنیا کیا ہے ؟ دنیا جنتی انسانون کی انتخاب گاہ ہے۔ قیامت کے بعد کے مرحلہ میں جنتی انسانوں کو جنت کی ابدی آرامگاہوں میں بسایا جائے گا۔ یہ حقیقت قرآن میں آخری حد تک واضح ہے، بشرطیکہ آدمی سنجیدگی کے ساتھ قران پر غور کرے۔ قرآن بتاتا ہے کہ زمین و آسمان اس لیے بنائے گئے ہیـں۔ تاکہ اولو الالباب (عقلمند، دیکھنے والے) اس کو دیکھ کر آیات خداوندی کا ادارک کرسکیں (سمجھ سکیں) سورة الملک میں اللہ نے فرمایا۔ ” جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے۔ اور وہ (اللہ) غالب بخشنے والا ہے “۔ آیت 2، یعنی انسان کو اس لیے تخلیق کیا گیا ہے تاکہ آزمائش میں ڈال کر یہ دیکھا جائے کہ ان میں سے کون ہے جو جنت کی نفیس فضاؤں میں بسائے جانے کے لائق ہے۔ “ ” از دین انسانیت صفحہ 83) چوتھا حکم : ” اللہ پر بھروسہ کیجئے “۔ بھروسہ صرف اس پر کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ مضبوط، سب سے اعلیٰ ، سب سے بڑا اور سب سے زیادہ قدرت والا ہو۔ شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمار ایہ ایمان ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ سورة البقرہ میں اس کی تفصیل یوں آتی ہے۔ ” اللہ کے سوا کوئی اور ذات عبادت کے لائق نہیں وہ زندہ اور قائم ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسی کا ہے “۔ (آیت 255) یہ احکام اتنے واضح اور آسان ہیں کہ ان پر عمل کر کے ہر انسان دنیا و آخرت میں پر سکون اور کامیاب ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین۔
Top