Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mafhoom-ul-Quran - Al-Ahzaab : 37
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ١ۚ وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ١ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
وَاِذْ
: اور (یاد کرو) جب
تَقُوْلُ
: آپ فرماتے تھے
لِلَّذِيْٓ
: اس شخص کو
اَنْعَمَ اللّٰهُ
: اللہ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاَنْعَمْتَ
: اور آپ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
اَمْسِكْ
: روکے رکھ
عَلَيْكَ
: اپنے پاس
زَوْجَكَ
: اپنی بیوی
وَاتَّقِ اللّٰهَ
: اور ڈر اللہ سے
وَتُخْفِيْ
: اور آپ چھپاتے تھے
فِيْ نَفْسِكَ
: اپنے دل میں
مَا اللّٰهُ
: جو اللہ
مُبْدِيْهِ
: اس کو ظاہر کرنے والا
وَتَخْشَى
: اور آپ ڈرتے تھے
النَّاسَ ۚ
: لوگ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
اَحَقُّ
: زیادہ حقدار
اَنْ
: کہ
تَخْشٰىهُ ۭ
: تم اس سے ڈرو
فَلَمَّا
: پھر جب
قَضٰى
: پوری کرلی
زَيْدٌ
: زید
مِّنْهَا
: اس سے
وَطَرًا
: اپنی حاجت
زَوَّجْنٰكَهَا
: ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دیدیا
لِكَيْ
: تاکہ
لَا يَكُوْنَ
: نہ رہے
عَلَي
: پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں
حَرَجٌ
: کوئی تنگی
فِيْٓ اَزْوَاجِ
: بیویوں میں
اَدْعِيَآئِهِمْ
: اپنے لے پالک
اِذَا
: جب وہ
قَضَوْا
: پوری کرچکیں
مِنْهُنَّ
: ان سے
وَطَرًا ۭ
: اپنی حاجت
وَكَانَ
: اور ہے
اَمْرُ اللّٰهِ
: اللہ کا حکم
مَفْعُوْلًا
: ہوکر رہنے والا
اور جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے احسان کیا اور تم نے بھی احسان کیا، کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ ڈرنا تو صرف اللہ سے چاہیے۔ پھر جب زید نے اس سے اپنی غرض پوری کرلی یعنی نکاح کے بعد اسے طلاق دے دی تو ہم نے تم سے اس کا نکاح کردیا۔ تاکہ مومنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے میں کچھ تنگی نہ رہے جب وہ انہیں طلاق دے دیں اور اللہ کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا
سیدنازید کی شادی اور طلاق کی مصلحت تشریح : دراصل ان آیات میں اللہ کی اس حکمت کو بیان کیا گیا ہے جس کے ذریعہ سے جاہلیت کی وہ رسم سرے سے ختم کرنا مقصود تھا کہ جس کی وجہ سے لوگ منہ بولے بیٹے کو سگے بیٹے کے برابر درجہ دیتے تھے۔ اسی وجہ سے وراثت کے معاملہ میں بڑی الجھنیں پیدا ہوجاتی تھیں اور پھر اصلی رشتہ دار وراثت سے کافی حد تک محروم رہ جاتے تھے اسی طرح رشتہ داریوں کی حرمت اور درجات میں کافی گڑ بڑ ہوجاتی تھی۔ دین ِ اسلام اصلاح معاشرہ کا دین ہے اسی لیے اس غلط رسم کو جڑ سے نکال دیا گیا۔ ہوا اس طرح کہ جب خلاف خوشی سیدہ زینب اور سیدنازید کا نکاح اللہ کے حکم کے تحت ہوگیا تو اصل میں ان دونوں کو دلی طور پر ایک دوسرے سے رغبت یعنی خوشی نہ ہوـئی تو نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کا آپس میں جھگڑا رہنے لگا۔ سیدنازید ؓ اکثر نبی اکرم ﷺ سے شکایت کرتے تو آپ ان کو سمجھاتے کہ عزت کا مسئلہ ہے تم کوشش کر کے نباہ کرو اور طلاق نہ دو ۔ اصل میں تو یہ سب اللہ کے طے شدہ پروگرام کے تحت ہو رہا تھا۔ اور حضور کو اللہ نے بتا دیا تھا کہ جب زید ان کو طلاق دے گا تو عدت پوری ہونے پر آپ نے سیدہ زینب سے نکاح کرنا ہے۔ یہ حکم آنحضرت ﷺ کو بہت مشکل لگ رہا تھا۔ آپ سخت پریشان تھے کہ لوگوں کو میرے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا بہت بڑا موقعہ مل جائے گا اور یوں میری عزت وقار اور نبوت کے درجہ پر بہت برُا اثر پڑے گا اور لوگوں کے غلط سلط الزامات، طعنوں اور تہمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تو دلوں کے بھید اور ہر ظاہر باطن سے اچھی طرح واقف ہے تو اسی لیے اس آیت میں کہا گیا کہ تم لوگوں سے ڈرتے ہو ؟ حالانکہ ڈرنا تو صرف اللہ ہی سے چاہیے یعنی بندوں سے مت ڈرو وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے صرف اللہ سے ڈرو اور اس کے حکم کو مانو۔ کوئی جھجک اور پریشانی دل میں مت لاؤ۔ جتنے نبی آپ سے پہلے گزرے ہیں ان کے ساتھ بھی ہمارا یہی طریقہ رہا ہے کہ جس بات سے ان کو منع کیا گیا انہوں نے وہ کام ہر کز نہیں کیا اور جس بات کے کرنے کا حکم دیا گیا فورا بخوشی انہوں نے کر ڈالا۔ آپ بھی بلا جھجک زینب کی طلاق اور عدت پوری ہونے کے بعد ان سے شادی کرلیں یوں یہ بات پکی ہوجائے گی اور آئندہ کوئی مسلمان منہ بولے بیٹے کو سگے بیٹے کے برابر نہیں سمجھے گا۔ جان لو کہ زید آپ کے بیٹے کی حیثیت ہرگز نہیں رکھ سکتے کیونکہ وہ حارث کے بیٹے ہیں ان کی بیوی آپ کی بہو نہیں بلکہ عام عورت ہے۔ طلاق ہونے پر عدت پوری ہونے پر ان سے آپ شادی کرلیں یہ اللہ کا حکم ہے۔ فرمایا ” اور اللہ کا حکم ایک طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے “۔ یعنی اللہ کا حکم بڑی مناسب سوچ سمجھ اور بڑی احتیاط سے پہلے ہی تیار کیا جا چکا ہوتا ہے۔ اس لیے اس پر عمل کرنے میں کوئی تردد، کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے اور رسول تو اس بات کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں، وہ کبھی بھی حکم ماننے میں دیر نہیں کرتے اور نہ ہی سوچ بچار سے کام لیتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کفایت کرنے والا تو صرف اللہ ہی ہے اور وہی ہر مسئلہ کو نمٹانے کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے سیدہ زینب سے ان کی طلاق اور عدت پوری ہونے کے بعدشادی کرلی۔ اس پر تمام کفار کو نبی ﷺ کی ذات پر اعتراضات کرنے کا ایک بہانہ مل گیا تو اس کا جواب قرآن پاک میں یوں دیا گیا ہے۔ ” محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں “۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کے دو بیٹے پیدا ہوئے تھے جو بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے اس لیے آپ ﷺ کا تو کوئی بیٹا ہے ہی نہیں کہ جس کی بیوی ہو اور وہ طلاق ملنے پر سسر سے شادی کرلے۔ سیدنازید آپ کے بیٹے نہ تھے بلکہ صرف منہ بولے بیٹے تھے اور منہ بولا بیٹا ہرگز سگا بیٹا نہیں ہوتا اس کی حیثیت ہر لحاظ سے لے پالک کی ہی ہوتی ہے۔ یہ رسم کہ اس کو سگے بیٹے کی حیثیت مل جائے اب سے ختم کی جا رہی ہے۔ یہ مسئلہ تو اس وضاحت کے ساتھ یہاں ختم ہوتا ہے کہ یہ فرمانِ الٰہی بھی ہے اور سنت رسول بھی۔ ایک ایسے رسول کی سنت کہ جو تمام نبیوں پر مہر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مہر کا مطلب ہے کہ نبی و رسول کی آمد کو ختم کر کے اللہ نے پکی مہر لگا دی ہے کہ اب آپ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا نہ کوئی رسول آئے گا۔ دین ہر لحاظ سے مکمل ہوچکا ہے۔ قرآن و سنت میں قیامت تک کے تمام مسائل بڑی وضاحت سے بیان کردیے گئے ہیں۔ کوئی مسئلہ زندگی کا ایسا نہیں جو حل نہ کردیا گیا ہو۔ قرآن پاک میں اس کے بارے میں بڑی وضاحت سے کہہ دیا گیا ہے کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا “۔ (سورۃ المائدہ آیت : 3) دین ِ محمدی سے پہلے جس قدر دین دنیا میں آئے سب وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے چلے گئے اور بالآخر مخالف طاقت کے ہاتھوں ختم کردیے گئے۔ کیونکہ رسولوں کی آمد لوگوں کی اصلاح کے لیے سیدناآدم سے شروع ہوچکی تھی۔ مگر جو بھی رسول آتا وہ کسی خاص قوم یا ملک کے لیے آتا جبکہ نبی پاک ﷺ پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے اور آپ کا نام اور پیغام ہمیشہ جوں کا توں ہی رہے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ یہ بالکل پکی اور سچی حقیقت ہے۔ قرآن کی سچائی کا یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ چودہ سو سال پہلے جو بات قرآن میں کہہ دی گئی اس کو دنیا کا کوئی دور، تاریخ کا کوئی انقلاب اور قدرتی آفات کے اثرات اس کہی گئی بات کو بدل نہیں سکے کہ ” یہ دین آخری ہے اور مکمل ہے “۔ آج مخالف دین جو یہ کہتے ہیں کہ اتنی پرانی ہدایات آج کے اس بدلے ہوئے زمانے اور ترقی کے دور میں کیسے مانی جاسکتی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا وہی ہے اس کی ہر چیز آسمانوں سے زمین تک وہی ہے۔ انقلابات نے جغرافیائی حیثیت تو بدل دی مگر اخلاقی، روحانی اور انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کے تقاضے، اعتقاد اور اللہ کا تصور ہرگز نہیں بدل سکا۔ آج بھی کسی پڑھے لکھے یا جاہل سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ؟ تو وہ بےاختیار کہہ اٹھتا ہے۔ اللہ نے۔ اصل میں دین کی اکملیت کے بارے میں سورة المائدہ کی آیت 3 میں یہ اعلان بڑے وثوق سے کیا گیا ہے۔ کہ ” آئندہ آنے والے زمانوں میں تاریخ کے واقعات انہی اسباب کے تحت ہوں گے کہ جو بجائے دین اسلام کو جھٹلانے کے دین کی سچائی کے کام آئیں گے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے میں مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتاب دین انسانیت سے مدد لینا چاہوں گی۔ ان کی وضاحت بہترین اور جامع ہے مگر میں اس کا مفہوم اپنے الفاظ میں لکھنا چاہوں گی تاکہ بچوں کے معیار کے مطابق عام فہم اور آسان ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے لوگوں کا علم اتنا وسیع نہیں تھا کہ اللہ کی ذات کی تعریف کرسکیں۔ وہ تو ہے ہی عظیم و کبیر انسانی عقل سے بہت بلند مگر پھر بھی علم و عرفان نے انسان کو اس کی حقیقت سمجھنے میں کافی مدد دی ہے۔ پہلے تو اللہ کے تصور کو اندھا اعتقاد کہہ کر ختم کردیتے تھے جبکہ موجودہ دور میں۔ آزادی، سائنس اور سیکولرزم نے انسان کو اللہ کے زیادہ قریب اور دین کو زیادہ واضح کردیا ہے۔ اور یہ اس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے۔ کہ پہلے لوگوں میں دین، اسلام اور مذہب کے بارے میں زیادہ بحث مباحثہ نہ ہوتا تھا بلکہ کوشش کی جاتی تھی کہ مذہب پر بحث نہ کی جائے۔ اظہار خیال پر پابندی اب ختم ہوچکی ہے۔ اور اس طرح تمام مذہبی کتابوں کا متن کھل کر لوگوں کے سامنے آنے لگا ہے۔ جس کی وجہ سے قرآن پاک کی سچائی، معقولیت، چھپے ہوئے راز اور دین انسانیت کی کتاب ہونے کے اچھے اور پکے مضامین خوب وضاحت سے لوگوں کے سامنے آنے لگے ہیں۔ عام زندگی میں دیکھا جا رہا ہے کہ خود مسلم اور غیر مسلم قرآن کی حقیقتوں سے بحث مباحثہ کے ذریعہ زیادہ واقف ہو کر مسلمان پکا مسلمان اور غیر مسلم اسلام کی طرف راغب ہو کر اسلام قبول کر رہا ہے یا سوچ رہا ہے۔ آزادی رائے کا عمل تقریباً تین سو سال سے اہل علم کے درمیان جاری ہے حتیٰ کہ یہ ایک مستقل فن بن چکا ہے۔ اس میں دنیا کے تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔ یہ طریقہ اسلام کی سر بلندی، حقانیت اور برتری کو سامنے لانے کا بہترین ذریعہ بنا۔ مصنف مذکور نے اس کو یعنی آزادی اظہار کے فن کو ان الفاظ میں ظاہر کیا ہے۔ (1) ہائر کریٹیسزم (2) ہسٹاریکل کر یٹیسزم، تنقید متن یعنی (Textual Criticism) یہ ذریعہ اسلام کے حق میں بہترین ذریعہ بنا کیونکہ یہ کتابوں میں قران کی سچائی اور اصلی عبارات کو ثابت کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور یہ تمام ذرائع اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع میں سے ایک ہیں۔ بظاہر یہ آزادی رائے کا دور اسلام اور مسلمان کے خلاف لگتا تھا مگر یہ دین اسلام کی سچائی اور مضبوطی کا ایک بہت بڑا ہتھیار ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا۔ اور اس طرح دین کی حفاظت کا جو ذمہ اللہ نے لیا تھا یا وعدہ اس کے سلامت و صحیح رہنے کے لئے اللہ نے کیا تھا پورا ہوگیا اور جو لوگ اس کو قدیم دین کہتے تھے اس کو بہترین اور جدید ترین دین کہنے لگے۔ یہ تو آزادی رائے تھی جس کو ہم پہلا انقلابی ذریعہ کہہ سکتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں دوسرے انقلابی ذریعہ کی۔ یہ دوسرا فکری انقلاب جدید سائنسی انقلاب ہے۔ یہ سائنسی دور خاص طور سے پورے زور وشور سے تقریباً انیسویں صدی میں شروع ہوا۔ ویسے تو ہمارے بیشمار سائنس دان، محقق اور علماء گزر چکے ہیں مگر حقیقی علم تک پہنچنے کا زور دار ذریعہ وہ تجربہ یا مشاہدہ ہے جو قابل یقین اور واضح ہو۔ اب تک اللہ کے وجود کو صرف اس طرح واضح کیا گیا کہ ڈیزائن کو دیکھ کر ڈیزائنر کا خیال ملتا ہے۔ اس کو جدید بچہ بھی قبول نہیں کرتا وہ کچھ زیادہ دلیل کے ساتھ اس کی وضاحت مانگتا ہے اور یہ وضاحتیں Scientific Method میں ملتی ہیں۔ جیسے جیسے سائنسی علوم بڑھ رہے ہیں ویسے ویسے اس بات کا یقین مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ سائنس مذہب سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم آسمانی فضا کے راز پر ایک قرآنی آیت لکھتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا۔ اس نے آسمان و زمین سے کہا آؤ (ایک مقام پر) چاہو یا نہ چاہو تو دونوں نے کہا ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح (حٰم السجدہ آیت : 11) موجو دہ دور کے علم ریاضی، طبیعیات اور جیو فزکس کے علم کے مطابق کسی کرّہ کے لیے (Planet) فضا کا حصول اور موجودگی برقرار رکھنا بےحد مشکل کام ہے۔ یعنی کرّہ اور اس کے نزدیک ترین آسمان کے درمیان انتہاء کی مخالفت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فضا میں نزدیکی فضا گیسی ایٹم والے ایٹموں پر مشتمل ہوتی ہے تمام بڑے کرّوں میں یہ ایٹمی ذرات کرُّے کی سطح میں جذب ہوجاتے ہیں۔ جبکہ چھوٹے کرُّے میں کشش ثقل ایٹموں کو اپنے ساتھ باندھنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے اس طرح یہ ایٹمی طاقتیں فضا میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ ایٹمی ذرات اور دوسری کثیف گیسیں فضا میں تحلیل ہونے کی کوشش کرتی رہتی ہیں جبکہ ہماری زمین انہیں اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ یہ حالت، مجبوری کہلاتی ہے۔ یہ تمام تفصیلات، راز اور فضائی معاملات آج سے کچھ عرصہ قبل تک کسی کو معلوم نہ تھے۔ جب کہ یہ اتنی بڑی حقیقت چودہ سو سال پہلے چند الفاظ میں بیان کردی گئی تھی۔ اسی طرح بچہ کی نشوونما پیٹ کے اندر قرآن میں بڑے مختصر الفاظ میں بتائی گئی ہے جس کو میڈیکل سائنس نے بڑے بھر پور انداز میں بیان کیا ہے جو قرآن کی آیت کے بالکل مطابق ہے۔ اسی طرح انسان کی ابتداء بھی اب مان لی گئی ہے اور ڈارون کا وہ ارتقائی انسان جھوٹ ثابت ہوچکا ہے۔ قرآن میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ آدم مٹی سے بنے، حوا ان سے پیدا ہوئیں اور پھر انسان نطفہ سے پیدا ہوا۔ ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اسی طرح بیشمار حقائق ہیں جن کو سائنس اب بےحد تحقیق کے بعد مان رہی ہے۔ جیسا کہ سورج کی حرکت کا مسئلہ ہے قرآن میں صاف کہا گیا ہے کہ سورج اپنے مستقر کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ سائنس دان اس کو ساکن کہتے رہے۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے تجربات سے اس بات کو مان لیا کہ سورج ساکن نہیں بلکہ وہ بھی باقی فضائی چیزوں کی طرح گردش کرتا ہے۔ یہ سب کچھ جان چکنے کے بعد کون ہے جو سائنس اور مذہب کو علیحدہ علیحدہ کہے گا۔ اور قرآن کا یہ اعلان سچ ثابت ہو رہا ہے۔ کہ انسانی فکر میں کوئی بھی تبدیلی اسلام کی سچائی کو جھٹلا نہ سکے گی۔ اور آنے والا کوئی بھی انقلاب صرف دین الٰہی یعنی اللہ کے دین کی تصدیق کرے گا۔ تیسرا انقلاب فکری انقلاب سیکولرزم کی تحریک ہے۔ اس کا مطلب ہے دین کے معاملہ میں غیر امتیازی رویہ۔ اور اس کا مطلب ہے بس یہی دنیا ہی سب کچھ ہے۔ یہ فکریورپ سے شروع ہوئی۔ بظاہر تو یہ تحریک مذہبی معاملات میں دخل اندازی کو منع کرتی تھی مگر حقیقت میں مذہب سے دور کرنے کی تحریک بن گئی۔ مگر مذہبی فطرت نے اس تحریک کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ اس سلسلے میں 1924 کا ترکی کا واقعہ ہمارے سامنے ہے جب اتا ترک نے اسلامی خلافت کا مکمل طور پر خاتمہ کر کے زبردستی سیکولرزم کی پالیسی ملک میں نافذ کردی۔ جس کی وجہ سے ملک پوری طرح غیر اسلامی نظام اپنانے پر مجبور کردیا گیا۔ اتا ترک کے انتقال کے بعد عصمت انونو 1973 میں صدر مقرر ہوا۔ اتاترک کے 50 سالہ دور حکومت میں باوجود سخت کوشش کے اسلام زندہ رہا۔ اور اسلام کی اس مضبوطی کا اعتراف عصمت انونو نے ان الفاظ میں کیا۔ ” میرے لیے اس پر یقین کرنا مشکل ہے جس کو میں دیکھ رہا ہوں، ہم نے اپنے بس بھر تمام کوشش کی کہ ترکوں کے دل سے اسلام کو نکال دیں اور اس کی جگہ مغربی تہذیب کو ان کے اندر داخل کردیں مگر حیرت انگیز طور پر نتیجہ ہماری توقع کے خلاف نکلا چناچہ ہم نے تو سیکولرزم کا پودا بویا مگر پھل نکلا تو وہ اسلام تھا۔ “ (الوعی الاسلامی، ذوالقعدہ 1408 ہجری) سو ویت یونین بھی ایک مثال ہے، 1917 میں طاقتور حکوت کے ذریعے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی گئی سو سال کی محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1991 میں کمیونسٹ ایمپائر ٹوٹ گیا اور پھر اسلام زندہ سلامت نکل کھڑا ہوا۔ یہ جملہ مولانا وحید الدین خان صاحب کا قابل تعریف ہے۔ لکھتے ہیں ” اسلام کے خلاف تاریخ کا ہر چیلنج صرف یہ ثابت کر رہا ہے کہ اسلام ابدی طور پر ایک مستحکم دین ہے، اس کو کوئی زیر کرنے والا نہیں ہے “۔ ثابت ہوگیا کہ اسلام کبھی بھی مٹنے والا مذہب نہیں۔ تاریخی انقلا بات نے اس کو مضبوط سے مضبوط کیا عارضی طور پر اسلام کے خلاف کافی جدوجہد کی گئی جو وقتی طور پر اسلام کو دبانے میں کامیاب ہوئی مگر مٹا نہ سکی۔ اور یہی اللہ کا وعدہ ہے۔ مولانا مودودی (رح) صاحب اپنی تقریر 9 مئی 1947 ء میں تین صالح اصول مسلمان کو دیتے ہیں۔ 1۔ لادینی کے مقابلہ میں اللہ کی بندگی اور اطاعت۔ 2۔ قوم پرستی کے مقابلے میں انسانیت۔ 3۔ جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں اللہ کی حاکمیت اور جمہور کی مخالفت اور سب سے بڑا رہنما اور بہترین اصول اتباع قرآن و حدیث اسلام کی لازوال طاقت اسی میں پوشیدہ ہے۔ رسول اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ، مقبول اور بہترین انسان ہوتے ہیں اور نبی اکرم ﷺ کا درجہ سب سے بلند اس لیے ہے کہ آپ نے ایک مکمل دین، یعنی اسلام پوری دینا کو دے دیا۔ جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ یہ تمام سلسلے اللہ کے خود بنائے ہوئے ہیں جو کہ سب چیزوں کا جاننے والا ہے۔ اس نے آپ کو آخری نبی کا درجہ دیا گویا آپ کی نبوت سلسلہء نبوت کو ختم کرنے کے لیے لگا دی گئی ہے۔
Top