Mafhoom-ul-Quran - Al-Ahzaab : 64
اِنَّ اللّٰهَ لَعَنَ الْكٰفِرِیْنَ وَ اَعَدَّ لَهُمْ سَعِیْرًاۙ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَنَ : لعنت کی الْكٰفِرِيْنَ : کافروں پر وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے سَعِيْرًا : بھڑکتی ہوئی آگ
بیشک اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے۔
برے لوگوں اور رہنماؤں کا انجام تشریح : گناہ اور بےحیائی سے گھر، محلے، شہر، ملک اور دنیا میں بےسکونی بدامنی اور انتشار پھیلتا ہے اسی لیے رسول کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہر چھوٹے بڑے گناہ سے منع کیا ہے۔ سزا چھوٹے گناہ کی بھی ملے گی کیونکہ چھوٹا گناہ ہی بڑے گناہوں کی بنیاد بنتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک چھوٹی سی پنسل کی چوری ہی انسان کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔ کیونکہ اس چوری کا پکڑا جانا انسان کی بےعزتی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس پریشانی میں وہ اپنا سکون کھو بیٹھتا ہے۔ اگر وہ چوری پکڑی جائے تو انسان کی عزت برباد ہوجاتی ہے وہ اپنی کلاس میں چور مشہور ہوجاتے ہیں حالانکہ چوری بڑی معمولی تھی اور اگر چوری پکڑی نہ جائے تو چوری کرنے کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور اگلی دفعہ وہ ذرا اور بڑی چیز کی چوری کرتا ہے اور یوں برائی کی جڑ انسان کے اندر مضبوط ہونے لگتی ہے۔ یہ تو چھوٹی سی مثال ہے۔ برائی میں جھوٹ، چوری، غیبت، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد اور جیسا کہ کفار کا ذکر کیا گیا ہے کہ غلط افواہیں پھیلاتے اور عورتوں سے بدتمیزی کرتے تھے۔ تو ایسے ہی تمام لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے اور خبر سنائی ہے کہ جہنم کی آگ ان کے لیے تیار کی کئی ہے۔ وہاں بےیارو مددگار ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا۔ صرف آگ ہی تیار نہیں کی گئی بلکہ ان کو منہ کے بل دوزخ کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں محفوظ رکھے ذرا سی آگ چھو جائے تو انسان چیخ اٹھتا ہے تو وہاں اتنی زیادہ آگ میں کیا حال ہوگا یہ بالکل سچ بات ہے کیونکہ اللہ جل شانہ نے کہی ہے، یہ غلط ہو ہی نہیں سکتی۔ اس وقت وہ عذاب کی سختی سے پریشان ہو کر آہ وفریاد کریں گے اور کہیں گے کہ اس میں ہمارا قصور نہیں ہمارے بڑوں نے ہمیں گمراہ کیا کاش ہم ان کی بجائے اللہ و رسول ﷺ کا کہا مانتے تو آج یہ حال نہ ہوتا ! پھر کہیں گے کہ یا اللہ ہمارے ان والدین، پیشوائوں اور لیڈروں کو جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا ان سب کو دو گنا زیادہ عذاب دے اور ان پر دوہری لعنت بھیج کیوں کہ ان کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوا ہے۔ ان کی اس بات سے خاص کر اور ویسے ہر لحاظ سے یہ بات تو طے ہے کہ یہی لوگ قوموں کو، افراد کو اور ایک فرد کو گمراہ کرنے کے بڑے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہی نیکی اور بدی کا بیج بوتے ہیں۔ حقیقت میں ان کو دہرا نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ عذاب ملے گا۔ جس طرح نیکی کا ثواب اس کے پھیلنے تک اس شخص کو ملتا چلا جاتا ہے جہاں تک اور جس جس تک وہ نیکی پہنچتی چلی جاتی ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو اپنے رتبہ کے مطابق ہر کام نیکی اور سچائی کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیے تاکہ وہ کئی گنا عذاب سے بچ سکے اور نیک نامی حاصل کرسکے یہ تو ہوگئی ان کی ذمہ داری مگر ایک گناہ گار اپنے گناہ کی سزا سے اس طرح بچ نہـیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اچھی بھلی عقل اور سمجھ بندے کو دے رکھی ہے اور پھر صاف الفاظ میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ والدین کی فرمانبرداری ضرور کرو ان کو کبھی اف تک نہ کہو لیکن اگر کفر اور شرک کا حکم دیں تو ہرگز نہ مانو۔ کیونکہ کفر وشرک تمام روحانی بیماریوں کی جڑ ہیں دنیا میں بیشتر برائیاں انہی کی وجہ سے پھیلتی ہیں اور آخرت کا عذاب بڑا سخت عذاب ہوگا اللہ اس سے اپنی پناہ میں رکھے ( آمین) ۔ قرآن میں صرف سزا کا ہی ذکر نہیں کیا گیا بلکہ انعام اور جنت کا ذکر بھی کیا گیا ہے اگلی آیات میں خوشخبری دی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
Top