Mafhoom-ul-Quran - Faatir : 2
مَا یَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَ مَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
مَا يَفْتَحِ : جو کھول دے اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ رَّحْمَةٍ : رحمت سے فَلَا مُمْسِكَ : تو بند کرنے والا انہیں لَهَا ۚ : اس کا وَمَا يُمْسِكْ ۙ : اور جو وہ بند کردے فَلَا مُرْسِلَ : تو کوئی بھیجنے والا نہیں لَهٗ : اس کا مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ : اس کے بعد وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ جو اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے تو کوئی اس کو بند کرنے والا نہیں اور جو وہ بند کر دے تو اس کے بعد کوئی اسے کھولنے والا نہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے۔
شیطان انسان کا دشمن ہے تشریح : اوپر دی گئی آیات کو جب ہم غور سے پڑھ لیتے ہیں تو ہمیں اللہ کی قدرت کا پورا یقین ہوجاتا ہے پھر ہمیں اس کا پروگرام سمجھ آ نے لگتا ہے اور یوں تو کل مضبوط ہوجاتا ہے۔ پھر مضبوط ایمان و ارادہ ہمیں شیطان سے نمٹنے کی پوری طاقت دے دیتا ہے اور ہم اپنے نیکی کے فرشتوں کی مدد سے اس کو ہرا دیتے ہیں اسی کو کہتے ہیں مرد کامل یعنی کامیاب انسان۔ فرشتوں کا ذکر ہوچکا اب ذرا شیطان کا مطلب بھی سمجھ لیا جائے تو شیطان جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے برائی کرنے والا، برا راستہ دکھانے والا۔ انسان کی پیدائش پر شیطان ناراض ہوگیا تھا کیونکہ یہ بھی انسان کی طرح عمل اور ارادہ کی طاقت رکھتا ہے اور اس لیے دنیا میں اسی کی چہل پہل تھی تو اللہ نے انسان کو اس سے برتر مخلوق بنا دیا تبھی تو انسان کو سجدہ کروایا اس وقت شیطان اکڑ گیا اور کہنے لگا کہ میں تو آگ سے بنا ہوں، یہ مٹی سے بنا ہے لہذا میں بڑا ہوں، میں اس کو سجدہ نہیں کروں گا۔ اللہ نے اس پر لعنت بھیج دی اور اس نے کہا کہ میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا۔ جب سے انسان کے ساتھ دو مخلوق اور بھی منسلک ہوگئیں یعنی فرشتے اور شیطان۔ شیطان کو صرف اتنی ہی طاقت دی گئی ہے کہ وہ ہر برے کام میں اتنی کشش اور اچھائی بیان کرتا ہے کہ کمزور بندہ نیکی کی راہ چھوڑ کر اس کے کہنے میں آجاتا ہے۔ جبکہ مضبوط ایمان والا انسان اس کے بہلانے پھسلانے میں ہرگز نہیں آتا۔ ورنہ تو اگر وہ انسان کو مجبور کرنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو کوئی بھی اس کی گرفت سے نہ بچ سکتا۔ آیت نمبر 5 میں اللہ فرماتا ہے۔ ” بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے سو تم بھی اسے دشمن سمجھو “۔ نیک فطرت لوگوں کے لیے اللہ نیکی کی راہیں کھول دیتا ہے اور بد فطرت کے لیے بدی کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ تو نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ تسلی دیتے ہیں کہ آپ گمراہوں کے لیے جان ہلکان نہ کریں۔ بس اللہ کا پیغام کھول کھول کر بیان کرتے جائیں۔ عمل کرنا، نہ کرنا، ان لوگوں کا اپنا کام ہے۔ اور فرمایا کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اللہ اپنے وعدے کے مطابق ان کی ضرور خبر لے گا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔
Top