Mafhoom-ul-Quran - Yaseen : 13
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِ١ۘ اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَۚ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (قصہ) اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘ : بستی والے اِذْ : جب جَآءَهَا : ان کے پاس آئے الْمُرْسَلُوْنَ : رسول (جمع)
اور ان سے گاؤں والوں کا قصہ بیان کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے۔
انطاکیہ کی ایک بستی میں داعیان حق کی روئیداد تشریح : ان آیات میں بھی انسانی فطرت کا بیان ہے کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی قوم کے پاس ہدایت کے لیے کوئی پیغمبر بھیجا گیا انہوں نے اس کو جھٹلایا سوائے چند افراد کے انہوں نے اکثر پیغمبروں کو قتل بھی کردیا۔ اسی سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ کو کہا گیا ہے کہ آپ ان کفار کی نافرمانی سے ہرگز پریشان نہ ہوں بلکہ ان کو عبرت دلانے کے لیے اس گاؤں کا قصہ سناؤ۔ یہ عبرت ناک قصہ صرف اہل مکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ تاقیامت تمام لوگوں کے لیے یہ سبق کا مقام ہے۔ قصہ یوں ہے کہ شام میں ایک گاؤں انطاکیہ تھا وہاں پر لوگوں کو ہدایت دینے کے لیے دو رسول بھیجے گئے بعض روایات میں ان کے نام یوحنا اور شمعون بتائے گئے ہیں واللہ اعلم تو حسب معمول لوگوں نے ان کو جھٹلایا تو ان کی مدد کے لیے ایک تیسرا رسول بھیجا گیا مگر قوم اس قدر بگڑی ہوئی تھی کہ کسی کی بات ماننے کو تیار نہ تھی۔ اسی دوران ایک حبیب نامی شخص پیغمبروں کی خبر سن کر بھاگتا ہوا آیا تو اس نے بھی لوگوں کو یہی کہا۔ اصل میں یہ شخص فطرتاً نیک انسان تھا۔ اور گاؤں کے قریبی غاروں میں تنہائی میں اللہ کی عبادت کرتا تھا اور اس کو اللہ نے اتنی عقل سمجھ دی تھی کہ ٹھیک اور غلط راستے کی پہچان کرسکے اسی لیے جب وہ بستی میں آیا تو اس نے لوگوں کو کہا کہ ” تم پیغمبروں کی مخالفت کیوں کرتے ہو۔ یہ تو بالکل ٹھیک بات کہتے ہیں۔ ہمیں اللہ نے ہی پیدا کیا ہے اس لیے وہی عبادت کے لائق ہے۔ وہی ہمیں پیدا کرنے، پالنے، پھر مارنے اور اپنے پاس واپس بلانے والا ہے۔ کوئی بھی ایسی طاقت اس کے علاوہ ایسی نہیں جو یہ سب کچھ کرسکے یا صرف اتنا ہی کرسکے کہ اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی مصیبت پر اللہ سے سفارش کر کے دور کروا سکے۔ اس لیے اتنی سی بات کو سمجھو اور مانو۔ کیونکہ سب نے مرنے کے بعد اسی اللہ کے پاس ہی چلے جانا ہے “۔ یہ سب باتیں بستی والے کہاں ماننے والے تھے انہوں نے اس کو قتل کردیا۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا برگز یدہ بندہ تھا سیدھا جنت میں گیا۔ اب یہاں سے ایک نکتہ نکلتا ہے، کیونکہ مسلمان کو تو عالم برزخ کے بعد جنت میں جانا ہوگا یہاں شہید کی فضیلت ظاہر کی گئی ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے۔ ” قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا “۔ (بیہقی شریف) یوں ثابت ہوگیا کہ عالم برزخ تو ضروری ہے مگر شہید کی قبر کو ہی پر آسائش بنا دیا جاتا ہے۔ اسی لئے تو مسلمان باقی دعاؤں کے ساتھ قبر کے عذاب سے بھی پناہ مانگتا ہے۔ اصل میں اس قبر کے قیام کی بھی اتنی حالتیں ہوتی ہیں۔ نیک انسان اس سونے کی مدت کو پر سکون پر آسائش اور بہترین خوابوں کی صورت میں انجوائے کرتا ہے۔ جبکہ درمیانہ نیک بندہ نیند میں رہتا ہے پرسکون نیند میں اور بد انسان اس نیند میں خوفناک خوابوں سے اسی طرح بےسکون رہتا ہے جیسا کہ کوئی نائٹ میئر ( ڈراؤ نے خواب) سے خوفزدہ اور بےچین ہوجاتا ہے۔ الحمد للہ 22 بائیسواں پارہ مکمل ہوا
Top