Mafhoom-ul-Quran - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کے لیے مردہ زمین ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اگایا پھر یہ اس میں سے کھاتے ہیں۔
ﷲ تعالیٰ کے انعامات انسان کے لیے تشریح : پچھلی آیات میں رسولوں اور انسانوں کا معاملہ کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ کہ رسول اللہ کی طرف سے بہت بڑی رحمت ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے دلوں کے زنگ کو دور کرتے ہیں، جنت کے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہمیں ہر قسم کی جھاڑ جھنکار، اونچ نیچ اور کھائیوں سے بچاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا پیغام بڑا پاکیزہ اور سادہ ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ ” اللہ کو مانو رسول کو مانو اور آخرت پر یقین کرو “۔ مگر بدنصیب انسان ان سے نفرت کرتے ہیں ان پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ لیکن یہ ظلم و زیادتی اصل میں وہ خود اپنے اوپر کر رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ نیک لوگ، ان سے محبت کرتے ہیں اور یوں اللہ کے محبوب بن جاتے ہیں۔ اگر انسان ذرا سا بھی غور و فکر کرے تو اس کو دنیا کے چپے چپے پر اللہ کا وجود اور اپنا مرنا اور پھر زندہ ہونا صاف دکھائی دے سکتا ہے۔ جس طرح زمین خشک ہوجاتی ہے پھر تر و تازہ ہوجاتی ہے اسی طرح انسان بھی مرجاتا ہے اور اللہ کے حکم سے پھر زندہ ہوجائے گا۔ انسان کا دنیا میں آنا، درختوں کا معمولی بیج سے اتنا بڑا تناور درخت بن جانا، چشموں کا زمین اور پہاڑوں میں سے پھوٹنا اور پھر زمین اور پانی و بیج کے ملاپ سے قسم قسم کے پھل پھول اور فصلوں کا لہلہانا، کیا یہ سب کچھ کوئی انسان کرسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں کوئی بندہ کتنا ہی بڑا عالم فاضل، طاقتور اور امیر و کبیر ہو وہ ایک انچ زمین اپنی قدرت سے نہیں بنا سکتا۔ حیرت کی بات ہے کہ انسان ہر لمحہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، استعمال کرتا ہے، پھر جب موت آتی ہے تو اس کو کسی صورت ٹال نہیں سکتا، پھر بھی وہ اللہ کو نہیں مانتا اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ اب ذرا اور آگے چلیں تو اللہ کی حکمتیں اور قدرتیں اور بھی زیادہ نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ ہر چیز میں نر و مادہ کا ہونا، سولھویں سترھویں صدی کی تحقیق ہے۔ جبکہ قرآن پاک میں یہ بیالوجی کا اتنا بڑا اصول چودہ سو سال پہلے بتا دیا گیا کہ نر و مادہ انسان، حیوان، نباتات، جمادات اور بہت سی ایسی چیزیں جو ابھی ہماری تمہاری نظر سے چھپی ہوئی ہیں ان سب میں تخلیقی عمل کے لیے جوڑوں کا ہونا ضروری ہے۔ اور پھر اس خیال کی بھی تردید کردی کہ تم جو نباتات و جمادات کو بےجان سمجھتے ہو تو یہ بھی غلط ہے بلکہ جس طرح انسان زندہ ہے اسی طرح دنیا کا ذرہ ذرہ زندگی سے بھر پور ہے۔ موجودہ سائنسی تحقیق قرآن پاک کی اس آیت کی تصدیق کرتی ہے۔ کہ جو سورت یٰس ٓ کی آیت 36 میں بتایا گیا ہے۔ پھر کائنات کے اس نظام کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے دن اور رات وجود میں آتے ہیں۔ یہ زبردست نظام صرف وہ زبردست علیم و حکیم ہی بنا سکتا ہے جو اس کے بارے میں پوری پوری معلومات رکھتا ہے۔ ان آیات کی تفسیر ڈاکٹر غلام مرتضی صاحب بڑے اچھے انداز میں یوں کرتے ہیں لکھتے ہیں۔ ” قرآن مجید سب کو سیار گان قرار دے رہا ہے اور سب کے بارے میں یہ کہہ رہا ہے کہ ہر ایک کا اپنا اپنا فلک ہے اور ہر ایک کا اپنا اپنا مدار ہے اور یہ تیر رہے ہیں۔ یہ بالکل وہ تصور ہے جو اس دور کی فزکس نے آکر انسان کو دیا ہے کہ فلک کے اندر ستارے تیر رہے ہیں۔ جو خلا میں ہے اور پھر اس کو ہمارے لیے نشانی قرار دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ زمین اپنے محور سے ساڑھے تیئس کے زوایے پر ٹیڑھی کھڑی ہے، بالکل سیدھی نہیں اگر ٹیڑھی نہ ہوتی تو دن رات کا اس طرح آنا جانا ممکن نہ ہوتا۔ صرف زمین ہی نہیں دیگر سیارگان بھی اس زاویے پر ٹیڑھے ہیں اور اسی طرح وہ اپنے مدار کے گرد اور پھر اپنے فلک اور نظام شمسی میں حرکت کر رہے ہیں۔ صاف کہا گیا ہے کہ سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے “۔ (از انوار القرآن ) چاند کی رفتار اور اس کی منزلیں مقرر ہیں۔ جس سے دن مہینے اور سال کی گنتی ہوتی ہے۔ سمندر میں مدو جزر کا عمل ہوتا ہے اس کے علاوہ بیشمار فائدے ہیں انسان کے لیے چاند گھٹتا بڑھتا ہر ماہ 28 منزلوں میں سے گزرتا ہے۔ کسی سیارے کی مجال نہیں کہ اپنے معمول سے ہٹ کر کسی دوسرے سیارے میں جاگھ سے۔ ہر سیارہ اپنے اپنے دائرہ کے اندر مقررہ نظام وقت اور رفتار کے مطابق گھوم رہا ہے۔ کوئی ایک سیارہ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوسکتا۔ یہ پورا نظام انتہائی منظم طریقے سے چل رہا ہے کہ اللہ کی قدرتیں نظر آتی ہیں۔ کون ہے جو اس نظام میں ایک ذرہ برابر بھی دخل اندازی کرسکے۔ یہ سب کچھ اللہ کی وحدت اور قدرت کی بہترین نشانیاں ہیں بات تو بڑی ہی وسیع و عریض ہے مگر یہاں چھوٹی چھوٹی نشانیوں سے اس خدائے برتر کی کبریائی کو ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب انسانی سواریوں میں سے ایک سواری کشتی اور ہوائی جہاز کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ کشتی کا بنانا بڑا نیا تجربہ تھا تو یہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا نوح (علیہ السلام) کو الہام کے ذریعے سکھایا۔ کیونکہ طوفان آنے والا تھا اور اللہ کی قدرت سے نافرمان لوگوں کا خاتمہ کرنا تھا مگر نسل مخلوقات جاری رکھنے کے لیے ایک ایسی سواری ایجاد کرنے کا حکم دیا گیا جو پانی پر چلتی ہے۔ انسانوں کو سفر کرنے اور تجارت کرنے کا طریقہ سکھایا گیا کہ یہ اللہ کی قدرت سے پانی پر بڑے سے بڑا بوجھ اٹھا کر تیر سکتی ہے۔ اور پھر کشتی جیسی کچھ اور سواریوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور فرمایا کہ یہ سب کچھ صرف اللہ ہی کی قدرت سے ہو رہا ہے وہ چاہے تو ڈبو دے اور اس کے یہ چاہنے میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ یہ آیت بڑی پر معنی ہے۔ ” اور ان کے واسطے ہم نے کشتی جیسی چیزوں کو بنا دیا جس پر سوار ہوتے ہیں “ (یا ہوں گے) اس کی تفسیر مولانا مفتی محمد شفیع صاحب بڑے پیارے انداز میں یوں کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔ ” قرآن میں ہوائی جہاز کا ذکر، مگر یہ ظاہر ہے کہ قرآن نے اس جگہ اونٹ یا کسی خاص سواری کا نام نہیں لیا بلکہ مبہم چھوڑا ہے جس میں ہر ایسی سواری شامل ہے جو انسان اور اس کے اسباب و سامان کو زیادہ سے زیادہ اٹھا کر منزل مقصود پر پہنچا دے، اس زمانے کی نئی ایجاد ہوائی جہاز نے یہ واضح کردیا کہ اس کا سب سے بڑا مصداق ہوائی جہاز ہیں۔ اور کشتی کے ساتھ اس کی تمثیل بھی اس کی زیادہ مؤید ہے، کہ جس طرح پانی کا جہاز پانی پر تیرتا ہے، پانی اس کو غرق نہیں کرتا، ہوائی جہاز ہوا پر تیرتا ہے، ہوا اس کو نیچے نہیں گراتی، اور عجب نہیں کہ قرآن حکیم نے اسی لیے ” مِنْ مِثْلِہٖ مَایَرْکَبُوْنَ “ ترجمہ ( اور ان کے لیے ویسی ہی اور چیزیں پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں “ (یا ہوں گے) کو مبہم رکھا ہو۔ تاکہ قیامت تک ایجاد ہونے والی سب سواریاں اس میں شامل ہوجائیں “۔ واللہ اعلم، آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ” مگر یہ ہماری رحمت اور ایک مدت تک کے فائدے ہیں “۔ (از معارف القرآن جلد 7 صفحہ 394)
Top