Mafhoom-ul-Quran - Yaseen : 48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب ھٰذَا الْوَعْدُ : یہ وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
اور کہتے ہیں ” اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا “ ؟
حشر کا میدان اور نیک و بد کا انجام تشریح : یہاں کفار مکہ کا اور آج کل کے ملحد وغیرہ لوگوں کا ذکر ہے کہ وہ قیامت کو ناقابل یقین سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ کب آئے گی قیامت ؟ قیامت جب آئے گی تو اتنی اچانک اور شدید ہوگی کہ کسی کو سمجھ میں ہی نہ آئے گا کہ کیا ہوگیا ہے۔ قیامت سے پہلے چھوٹی قیامت یں اور ہلکے پھلے عذاب تو انسانوں کی نافرمانی کی وجہ سے آتے رہتے ہیں جن کا مقصد انسانوں کو جھنجھوڑنا ہوتا ہے۔ کہیں طوفان بادو باراں، کہیں زلزلہ اور کہیں کسی دوسری شکل میں آفات ارضی و سماوی۔ اسی طرح بڑی اور فیصلہ کن قیامت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی مگر یہ بھی صرف اس دنیا کی قیامت ہوگی پوری کائنات قائم و دائم رہے گی کیونکہ پوری کائنات میں ہر روز کئی سیارے ٹوٹتے ہیں کئی وجود میں آتے ہیں یہ توڑ پھوڑ تو کائنات کا معمول ہے۔ بہرحال ہماری قیامت میں حشر کا نقشہ ان آیات میں بڑا ہولناک کھینچا گیا ہے۔ اس لحاظ سے سورة یٰس اگر قرآن پاک کا دل ہے تو یہ آیات اس سورت کا دل ہیں۔ کیونکہ یہاں اس عالم غیب کا نقشہ اس پر اثر انداز میں کھینچا گیا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جنت اور دوزخ کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے کہ گویا ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ان کو غور سے پڑھنے کے بعد کون چاہے گا کہ حشر کے میدان میں رسوا ہو کر اللہ کے غضب کا نشانہ بنے اور آخرت کی تکلیف دہ سزاؤں کا شکار ہو جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا ہوگا وہ ضرور اس جہان میں شیطان سے بچ کر نیک راہیں اختیار کرے گا۔ اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرے گا اور جنت کی پر آسائش زندگی حاصل کرے گا۔ جو نقشہ ان آیات میں جنت کا پیش کیا گیا ہے وہ کیا ہی خوبصورت تصور دیا گیا ہے۔ کون بیوقوف ہے جو اس پر آسائش اور ہمیشہ رہنے والے مقام کو حاصل کرنے کے لیے اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اور اس مٹ جانے والے جہاں کی تمام آسائشیں، دلچسپیاں اور پر کشش ماحول کو جنت کے حصول پر قربان نہ کر دے گا۔ اللہ کی طرف سے انسان کے لیے یہ خبریں وقت سے پہلے پہنچا دینا کس قدر محبت اور شفقت کی نشانیاں ہیں۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور اپنے بندوں سے بےحد پیار کرتا ہے۔ اس نے مغفرت کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ جس سے گناہ ہوجائے وہ معافی مانگ سکتا ہے اللہ غفور رحیم ہے۔ وہ تو خوش ہو کر معاف کردیتا ہے لیکن اسی طرح وہ ان لوگوں کے لیے جبار وقہار بھی ہے جو نا شکرے، نافرمان، ہٹ دھرم، ضدی اور مشرکین ہیں ان کو پورے انصاف سے ضرور سزا دی جائے گی۔ اللہ تو قادر مطلق ہے وہ پیدا کرتا ہے۔ انسان بچپن، لڑکپن، جوانی اور پھر بڑھاپے تک پہنچ جاتا ہے تو یہ تمام زندگی بےمقصد نہیں بلکہ با مقصد ہے۔ بڑھاپے میں انسان کی تمام قوتیں ماند پڑجاتی ہیں اور اس کے زیادہ طویل ہونے پر انسان یونہی لاچار ہوجاتا ہے جیسا کہ بچہ لاچار ہوتا ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے شدید بڑھاپے سے پناہ مانگی ہے۔ حدیث شریف ” اے اللہ بہت بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں “ (بخاری) جو اللہ انسان کو پیدا کر کے اس کو یوں مختلف درجوں سے گزار سکتا ہے وہ مردوں کو زندہ کیوں نہیں کرسکتا ؟ ضرور کرسکتا ہے اور ضرور کرے گا۔
Top