Mafhoom-ul-Quran - Az-Zumar : 28
قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
قُرْاٰنًا : قرآن عَرَبِيًّا : عربی غَيْرَ ذِيْ عِوَجٍ : کسی کجی کے بغیر لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کریں
اور ہم نے دیا ہے ( انہیں) قرآن جو عربی زبان میں ہے جس میں ذرا کجی نہیں تاکہ وہ اللہ سے ڈریں
قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا تشریح : پچھلی آیات میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ قرآن پاک میں انسان، اس کی زندگی، زندگی گزارنے کے اصول اور پوری کائنات کے بارے میں بڑی وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے تاکہ بندے کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی لیے پیغمبر کی زبان کے مطابق آسمانی کتاب نازل ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ عرب میں پیدا ہوئے پلے بڑھے اور عرب ہی آپ کے ارد گرد رہتے تھے۔ ظاہر ہے مادری زبان کو سمجھنا بےحد آسان ہوتا ہے۔ پھر یوں سمجھ لیجئے کہ یہ قرآن کی ہی برکت ہے کہ عربی زبان 15 صدیاں گزر جانے کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوئی جبکہ یہ اصولی بات ہے کہ ہر زبان وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر بدل جاتی ہے کہ اس کی گرامر، تشبیہات، تمثیلیں ‘ محاورے بلکہ الفاظ کی شکل لہجہ اور معنی تک تبدیل ہوجاتے ہیں اور پانچ سو سال میں تو وہ یا معدوم ہوجاتی ہے یا بالکل ناقابل فہم ہوجاتی ہے۔ مگر سبحان اللہ قرآن کی زبان، عبارت اور لہجہ میں معمولی سا فرق بھی نہیں آیا اور یہ ایک معجزہ سے کم نہیں۔ ہم بڑے دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ عربی زبان نہ صرف فصاحت، بلاغت، ترنم اور جامعیت کے لحاظ سے بےمثال ہے بلکہ یہ ایک غیر متبدل (نہ بدلنے والا) ہونے کی خاصیت بھی رکھتی ہے۔ اس کی مثال موجودہ نشرواشاعت کے ادارے بھی ہیں۔ وہی معیاری زبان ریڈیو، ٹیوی اور رسائل و کتب میں استعمال کی جاتی ہے جس کی بنیاد 14 سو سال پہلے موجود تھی۔ لوکل لینگوئج میں کچھ تبدیلی ہو تو ہو سٹینڈرڈ زبان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ ایک خالص ترین زبان ہے، لہٰذا عربی زبان سے محبت کرنی چاہیے کیونکہ 1 نبی اکرم سیدنا محمد ﷺ کی زبان عربی ہے۔ 2 قرآن عربی میں ہے۔ 3 جنتیوں کی زبان عربی ہوگی۔ تو یہ سب باتیں ہیں قرآن کے عربی زبان میں نازل ہونے کی وجہ، عرب لوگ زبان کے بارے میں بڑے محتاط ہوتے تھے اور بعثت سے پہلے عرب میں شعر و شاعری کی بڑی زبردست محفلیں منعقد ہوتی تھیں اس زمانے میں جب آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور قرآن پاک کا نزول ہوچکا تو عام رواج کے مطابق سورة ٔ کوثر خانہ کعبہ کے دروازے پر لکھ کر لگا دی گئی۔ لبید بن ربیعہ جو کہ اس وقت ملک الشعراء کہلاتا تھا۔ اپنا کلام لے کر گیا کہ خانہ کعبہ کے دروازے پر لگاؤں جب اس نے سورة کوثر پڑھی تو کلام کی عظمت، بھیجنے والے کی عظمت اور لانے والے کی عظمت اس کے دل و دماغ پر یوں چھاگئی کہ سجدے میں گر پڑا اور ایمان لے آیا۔ قرآن کی جامعیت کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اسی طرح سیدنا عمر ؓ کا ایمان لانا بھی قرآنی آیات کا ہی معجزہ تھا۔ بہر حال مقصد یہ ہے کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ عربی زبان سیکھنے کی پوری پوری کوشش کرے کیونکہ غیر عربی لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے علماء دین، فقہاء، محدثین اور بیشمار مترجمین کا بندوبست کر رکھا ہے، تاکہ کلام پاک کو غیر عربی لوگ بھی سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرسکیں۔ جب انسان سمجھے گا تو پھر اللہ سے ڈر کر صاف ستھری زندگی گزارنے کا اہتمام کرے گا۔ اللہ ہمیں قرآن پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔ کیونکہ اللہ کا مقصد تو صرف ہمیں آخرت کے عذاب سے بچانا ہے۔ اس کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں۔ اس کی عبادت سے تو صرف ہمارا اپنا ہی بھلا ہوگا۔
Top