Mafhoom-ul-Quran - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
اے پیغمبر ! میری طرف سے لوگوں کو کہہ دو کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے نامید نہ ہونا اللہ تو سب گناہوں کی بخشش دیتا ہے اور وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
عذاب اور ثواب کے صاف صاف احکامات تشریح : ان آیات میں پھر یہی اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ غفور و رحیم ہے۔ جب بھی تمہارے دلوں کو اللہ کا پیغام بھا جائے تو اس کی طرف چل پڑو یہ نہ سوچو کہ اوہو تمام عمر تو کفر میں گزر گئی اب کیا ہوگا۔ اس مقام پر چند خاص باتیں اچھی طرح یاد رکھیں۔ 1 ۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے توبہ کی شرائط پوری کرتے ہوئے توبہ کرو۔ 2 ۔ موت سے پہلے توبہ کرو کیونکہ موت کے وقت توبہ قبول نہ ہوگی۔ 3 ۔ قیامت کے دن یہ حیلہ ہرگز قبول نہ ہوگا کہ ہمیں تو معلوم ہی نہ ہوا کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر آخری نبی ﷺ تک برابرنبی اور پیغمبر لوگوں کی ہدایت کیلئے مسلسل آتے رہے ہیں۔ 4 ۔ جو نیک کام کرنا ہے فوراً کرو کیونکہ موت اور قیامت یکدم آجائے گی جیسا حدیث میں ہے کہ جو شخص مرگیا اس کے لیے قیامت آگئی (مشکوٰۃ) زندگی کے ہر سانس کو مہلت سمجھو اور سدھر جاؤ۔ 5 ۔ قیامت کے بعد پچھتاوا کسی کام نہ آئے گا۔ 6 ۔ عذاب کو دیکھ کر دوبارہ دنیا میں آ کر نیکی اختیار کرنے کی خواہش بالکل بےکار ہوگی۔ کیونکہ یہاں کی زندگی بس ایک ہی دفعہ ہوگی۔ 7 ۔ اللہ کو جھٹلانے والے بڑے سخت عذاب میں ڈالے جائیں گے۔ 8 ۔ یاد رکھو اللہ ہر چیز کا نگہبان ہے کیونکہ ہر چیز اسی نے پیدا کی ہے۔ 9 ۔ نیک لوگ انتہائی سکون میں ہوں گے۔ 10 ۔ کفرو شرک سے اللہ کا کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر کفروشرک کرنے والے کا سو فیصد اپنا ہی نقصان ہے۔ یہاں بھی اور وہاں بھی۔ جیسے موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ایسے ہی قیامت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اس لیے موت اور قیامت کو ہر وقت یاد رکھو گناہوں سے خود بخود ہی نجات مل جائے گی۔ موت کو تو ہم ہر وقت اپنی آنکھوں سے دن رات دیکھتے رہتے ہیں۔ اصل میں مرنے والے کی قیامت تو موت کے وقت ہی آجاتی ہے۔ رہ گئی پوری دنیا کی قیامت جس کو ہم بڑی اور فیصلہ کن قیامت کہتے ہیں۔ قرآن پاک نے تو اس کی تصدیق صدیاں پہلے کردی ہوئی ہے۔ مگر اب تو غیر مسلم تمام سائنسدان بھی اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ ایک دن سورج ٹھنڈا اور بےنور ہوجائے گا سیارے ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے اور دنیا تباہ ہوجائے گی۔ اس سے آگے تمام سائنسدان جتنا مرضی زور لگا لیں وقت کا تعین ہرگز نہیں کرسکتے ان کو تو اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ باہر کام سے نکلے ہیں اچھے بھلے تو واپس زندہ آئیں گے یا نہیں۔ قیامت کے وقت کا وہ کیا بتائیں گے۔ اسی طرح دوبارہ زندہ ہونا بھی ان کیلئے خاصہ مشکل مسئلہ بنا ہوا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اللہ نے کہہ دیا، رسول ﷺ نے تصدیق کردی اور اولیاء کرام نے بھی تصدیق کردی اور کسی حد تک جدیدسائنس نے بھی کچھ تجربات کی روشنی میں مان لیا ہے (تفصیل گزر چکی ہے) تو پھر اللہ کے اس فرمان پر شک کرنا سوائے جہالت اور نقصان اٹھانے کے اور کیا ہوسکتا ہے ؟ عقل مند اور سچا مومن وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی اس پیشگی اطلاع پر ایمان لے آئے اور اس آنے والے اور ہمیشہ رہنے والے جہان کی تیاری پوری طرح اس زندگی میں کرلے۔ اس وقفہ سے پورا پورا فائدہ اٹھائے اور دنیا وآخرت کمالے۔ یہی سچے مومن کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ مضبوط عقیدہ کی وجہ سے اللہ کی کہی ہوئی بات دوزخ و جنت کا بیان کیا ہوا نقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور دل میں اتر جاتا ہے پھر کون ہے جو جنت کی تمنا نہ کرے اور دوزخ کی راہوں پر چل نکلے لہذا ہم دعا گو ہیں کہ اے اللہ ہم تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم)
Top