Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم سفر کیلئے نکلو تو کوئی حرج نہیں اگر نماز میں اختصار کرلو۔ جب کہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے یقینا کافر تمہارے کھلم کھلا دشمن ہیں
سفر میں نماز قصر اور نماز خوف کے مسائل تشریح : پچھلی آیات میں ہجرت اور جہاد کا ذکر ہے جس میں سفر اور خوف لازمی ہے تو ان حالات میں نماز کے مسائل کا بیان ان آیات میں واضح کیا گیا ہے۔ اگر سفر میں ہوں یا جنگ کی حالت تو نماز میں رعایت دی گئی ہے مگر چھوڑنے کا ذکر بالکل آخر میں ہوا ہے وہ بھی چھوڑنے کا نہیں بلکہ قضا کرنے کا حکم ہے اس سے ظاہر ہوا کہ نماز کس قدر ضروری فریضہ ہے۔ سفر کے لیے یہ رعایت ہے کہ اگر 19 دن کا قیام ہو تو فرض چار کی بجائے دو پڑھ لیے جائیں وتر میں کوئی رعایت نہیں چونکہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں بھی پڑھے ہیں اس لیے سفر میں بھی پڑھ لیے جائیں۔ یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے، اس لیے اس میں گناہ کا کوئی کام نہیں اب دوسری صورت جنگ کی ہے تو اس میں نماز کے وقت فوج کو دو حصوں میں تقسیم کرلینا چاہیے۔ ایک حصہ فوج کا کفار کے آگے ڈٹا رہے دوسرا حصہ امام کے پیچھے نماز کیلئے کھڑا ہوجائے ایک رکعت پوری کرکے فارغ ہو کر پیچھے ہٹ جائیں اور دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں اور جو حصہ دشمن کے سامنے کھڑا تھا وہ نماز کے لیے امام کے پیچھے آکر کھڑا ہوجائے اور دوسری رکعت پڑھ لے سلام پھیر کر دوبارہ دشمن کے سامنے جا کھڑے ہوں جب کہ پہلا دستہ واپس آکر اپنی دوسری رکعت پوری کرلے (خود ہی) اسی طرح دوسرا دستہ واپس آکر اپنی دوسری رکعت پوری کرے۔ اس نماز میں اور بھی بہت سی رعایتیں ہیں۔ مثلاً : جنگ کی صورت حال کے مطابق نماز میں چل پھر سکتے ہیں سواری پر نماز پڑھ سکتے ہیں اگر مجبوری ہو تو اشاروں سے اور جدھر بھی رخ ہو جس صورت میں بھی ہو سکے نماز ادا کرنے کی اجازت ہے مگر ضروری ہے کہ اپنا اسلحہ اور بچاؤ کا سامان ساتھ ضرور رکھا جائے۔ ہاں، اگر بارش کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے اسلحہ جسم پر لگایا نہ جاسکے تو پھر اتار سکتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہر خطرے کا مکمل بندوبست رکھتے ہوئے، جیسے بھی نماز ادا ہو سکے کرلیں۔ کیونکہ دشمن تمہاری ہلکی سی غفلت سے بھی بہت بڑا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ احکامات اس لیے دیئے جارہے ہیں، کیونکہ دشمن سے بچاؤ اور ہر قسم کی احتیاط بےحد ضروری ہے اس کے بعد اللہ کا فضل اور اس کی مدد پر پورا بھروسہ رکھو، کیونکہ اللہ رب العزت نے تمہارے مقابلے میں لڑنے والے کفار کیلیے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
Top