Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 69
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِیْقًاؕ
وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ : اطاعت کرے اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ مَعَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کے ساتھ اَنْعَمَ : انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ : سے (یعنی) النَّبِيّٖنَ : انبیا وَالصِّدِّيْقِيْنَ : اور صدیق وَالشُّهَدَآءِ : اور شہدا وَالصّٰلِحِيْنَ : اور صالحین وَحَسُنَ : اور اچھے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ رَفِيْقًا : ساتھی
جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں
اللہ کے پسندیدہ بندے تشریح : ان آیات میں انسانوں کی درجہ بندی کی گئی ہے اعمال، کردار اور اعتقادات کی نسبت سے، یعنی اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو مخلوقات میں سے اکثر پر فضیلت دی اور پھر اس کی پرورش کے لیے تمام کائنات کو پیدا کردیا ہر قسم کی سہولیات، ہر قسم کے فائدے انسان کو جسمانی صحت کے لیے دیئے اور پھر روحانی صحت کے لیے اس کو ایسے اصول دیئے جو اس کو برائی سے بچا کر نیکی کی راہیں دکھاتے ہیں۔ یہ اصول کیسے دیئے ؟ کیونکہ بندہ نہ تو اللہ کو دیکھ سکتا ہے اور نہ آمنے سامنے بات کرسکتا ہے تو اس رابطے کے لیے اللہ نے کچھ ایسے اچھے انسان انسانوں میں سے ہی چن لیے جو اس قابل تھے کہ اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دیں۔ پیغام پہنچانے والے کو رسول، نبی یا پیغمبر کہتے ہیں۔ ان کی فطرت عام لوگوں سے بہت پاکیزہ ہوتی ہے۔ بچپن سے ہی یہ نیک فطرت، پاک دامن اور انتہائی شریف مزاج لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کو اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے۔ ان کو اپنے پیغامات وحی کے ذریعے دیتا ہے جو وہ لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں، پھر ان پیغامات کو صحیفہ یا کتاب، یعنی آسمانی کتاب کا نام دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی کریم ﷺ تک بندوں کی ہدایت کے لیے مختلف وقتوں میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے گئے۔ انسانوں میں سب سے بلند درجہ انبیاء (نبی کی جمع) کا ہے، پھر انبیاء کا حکم ماننا بندوں پر فرض کردیا گیا ہے۔ ان انبیاء میں حضرت ابراہیم، اسماعیل، اسحٰق، داؤد، سلیمان، عیسیٰ ، موسیٰ اور حضرت محمد ﷺ شامل ہیں۔ ان پر جو لوگ سب سے پہلے اور بغیر حیل و حجت کے ایمان لے آئے وہ صدیقین کے درجہ پر آتے ہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ سب سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لے آئے، پھر جو لوگ ان انبیاء پر اور اللہ پر اس قدر بھروسہ کرتے ہیں اور اس قدر عزت اور احترام کرتے ہیں کہ اپنی جان، مال، اولاد اور اپنی ہر چیز ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر اللہ کی راہ میں قربان کردیتے ہیں ان کو شہداء (شہید کی جمع ہے) کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ درجہ بھی بہت بلند درجہ ہے۔ چوتھے نمبر پر صالحین (صالح کی جمع) کا درجہ آتا ہے۔ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے خیالات پاکیزہ ہوں جو کبھی بھی شیطان کے بہکانے میں آکر غلط کام نہ کریں اور اگر کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً اللہ کے سامنے جھک کر عاجزی اور خلوص سے معافی مانگ لیتے ہیں۔ جھوٹ نہیں بولتے، قتل نہیں کرتے، غیبت نہیں کرتے، چوری نہیں کرتے، دوسروں کو نہ تنگ کرتے ہیں، نہ ان کا حق مارتے ہیں، غرض اللہ کی بتائی ہوئی ہر بات کو دل و جان سے مانتے ہیں اور ہرگز کسی بھی فرض کے ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے، ہر وقت اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ غرض اللہ کی مخلوق میں اللہ کے مقبول ترین بندوں میں سب سے پہلا درجہ انبیاء کا، پھر صدیقین کا، پھر شہداء کا اور پھر صالحین کا آتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ تمام لوگوں میں بہترین لوگ وہ ہیں جن کو دنیا میں اور آخرت میں بھی اوپر بیان کئے گئے مقبول ترین لوگوں کی دوستی یا قربت مل جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیک بندے کا رجحان ہمیشہ نیکی کی طرف ہی ہوتا ہے وہ دوست بھی اپنے جیسا ہی بنانا پسند کرتا ہے اور وہ اپنے جیسے نیک فطرت انسان کو ہی پسند کرتا ہے تو ایسے لوگوں پر اللہ کی رحمت کے دروازے یوں کھل جاتے ہیں کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ان کو بہترین لوگوں کی دوستی عطا کردیتا ہے اور پھر آخرت میں بھی ان کو ایسے ہی لوگوں کے قریب جگہ ملے گی۔ جنت کے بھی کئی درجات ہیں اور اسی طرح دوزخ کے بھی کئی درجات ہیں۔ اللہ جل شانہ ہمیں دوزخ سے بچا کر جنت میں اپنے مقبول بندوں کے قریب ترین بہترین جگہ عطا کرے اور اس کے لیے قرآن و سنت پر سختی سے عمل کرنا بےحد ضروری ہے اور ہمیشہ نیک اور اچھے لوگوں کو دوست بنانا چاہئے۔ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” وہ بیوپاری جو سچا اور ایمان دار ہو وہ انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ “ مطلب یہ ہے کہ انسان زندگی کے جس شعبہ میں بھی رہ کر کام کر رہا ہو اس کو اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے اصولوں سے ہٹ کر ہرگز کام نہیں کرنا چاہئے۔
Top