Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 77
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةً١ۚ وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ١ۚ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ؕ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ١ۚ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى١۫ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قِيْلَ : کہا گیا لَھُمْ : ان کو كُفُّوْٓا : روک لو اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتُوا : اور ادا کرو الزَّكٰوةَ : زکوۃ فَلَمَّا : پھر جب كُتِبَ عَلَيْهِمُ : ان پر فرض ہوا الْقِتَالُ : لڑنا (جہاد) اِذَا : ناگہاں (تو) فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان میں سے يَخْشَوْنَ : ڈرتے ہیں النَّاسَ : لوگ كَخَشْيَةِ : جیسے ڈر اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ خَشْيَةً : ڈر وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب لِمَ كَتَبْتَ : تونے کیوں لکھا عَلَيْنَا : ہم پر الْقِتَالَ : لڑنا (جہاد) لَوْ : کیوں لَآ اَخَّرْتَنَآ : نہ ہمیں ڈھیل دی اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : مدت قَرِيْبٍ : تھوڑی قُلْ : کہ دیں مَتَاعُ : فائدہ الدُّنْيَا : دنیا قَلِيْلٌ : تھوڑا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت خَيْرٌ : بہتر لِّمَنِ اتَّقٰى : پرہیزگار کے لیے وَ : اور لَا تُظْلَمُوْنَ : نہ تم پر ظلم ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
آپ نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن کو کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو نماز قائم کرو اور زکٰوۃ دو ۔ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا یہ حال ہے کہ لوگوں سے ایسے ڈر رہے ہیں جیسا اللہ سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔ کہتے ہیں اے رب ہمارے یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں کچھ اور مہلت دی ؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک متقی انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے اور تم پر ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا
لڑائی سے ڈرنے والے تشریح : ان آیات کا شان نزول کچھ یوں ہے کہ مکہ کے مظلوم مسلمان نبی کریم ﷺ سے جنگ کی اجازت مانگتے تھے کہ کفار کے ظلم و ستم سے نجات ملے۔ اس وقت ان کو جنگ سے رکے رہنے کا حکم دیا گیا کہ ابھی صرف صبر کرو اور نماز قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ دو ۔ لیکن ہجرت کے بعد مسلمان کچھ مضبوط ہوئے تو پھر جنگ کا حکم ہوگیا۔ تب مسلمانوں کے کچھ لوگ جنگ سے یوں ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور کچھ اور مہلت مانگنے لگے تو اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا کہ یہ دنیا کی خواہش میں اس قدر ڈوب گئے ہیں کہ آخرت کی خوشیوں بھری ہمیشہ کی زندگی ان کو یاد نہیں۔ اور فرمایا کہ ان کو بتاؤ کہ جو بھی یہ کریں گے ذرہ ذرہ کا ثواب ان کو دیا جائے گا۔ ان پر ہرگز ظلم نہ کیا جائے گا۔ ان کو آخرت اور ہمیشہ کی زندگی کے لیے خوب نیکیاں اور بھلائیاں کرنی چاہئیں اور اگر یہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ لڑائی میں مارے جائیں گے تو یہ بہت بڑی سعادت ہوگی اگر جہاد میں مرجائیں، موت کا وقت اور جگہ تو مقرر ہوچکی ہے یہ گھر پر ہوں یا مضبوط قلعہ کے اندر بند ہو کر بیٹھ جائیں یہ موت سے بچ نہیں سکتے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ موت سے ڈر کر ان نیکی کے کاموں سے مت رک جاؤ جو تمہارے لیے آخرت میں نجات کا باعث بنیں گے اور آخرت کی تمام بھلائیوں کا سبب بنیں گی۔ یہ دنیا تو چند روزہ عیش و آرام یا مصیبتوں اور پریشانیوں کا گھر ہے۔ ہمیشہ رہنے والی مزے کی زندگی جو آخرت کی زندگی ہے اس کی فکر کریں۔ اللہ کے احکامات کو خلوص دل سے مانیں اور عمل بھی کریں اور یوں انعام آخرت حاصل کریں۔ ایک اور بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے وہ یہ کہ جب بھی ان لوگوں کو خوشیاں ملتیں تو کہتے اللہ کے فضل سے ملی ہیں اور جب کوئی تکلیف پہنچتی تو کہتے آپ ﷺ کی وجہ سے پہنچی ہے۔ اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ان کو اتنی سی بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ فتح و شکست، فائدہ یا نقصان، سب اللہ کے ارادہ اور حکم سے ہوتا ہے اس میں کسی انسان کو دخل دینے کی نہ اجازت ہے اور نہ قدرت ہے اور پھر ان لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ رب العزت کی صفت رحمٰن و رحیم ہے اس کی طرف سے فضل و کرم ہوتا ہی رہتا ہے اور جو مصیبت ان لوگوں پر پڑتی ہے یہ خود ان کے غلط کاموں کی وجہ سے مصیبت آتی ہے۔ اس میں رسول ﷺ کا کیا کام ؟ رسول ﷺ کا کام تو صرف اللہ رب کا پیغام بندوں تک پہنچانا ہے۔ اب جو غلط کام کرے گا تو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ رب العالمین جو سمیع وبصیر ہے اس لیے ان کا کیا ہوا غلط کام اللہ سے چھپا ہوا نہیں، لہٰذا غلط کام کی وجہ سے مصیبت تو ان پر ضرور پڑے گی۔ اتنی سی بات یہ لوگ سمجھنے کی تکلیف نہیں کرتے۔
Top