Mafhoom-ul-Quran - Az-Zukhruf : 15
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌؕ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے مِنْ عِبَادِهٖ : اس کے بندوں میں سے جُزْءًا : ایک جزو۔ حصہ ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ : البتہ ناشکرا ہے کھلم کھلا
اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لیے اولاد ٹھہرائی بیشک انسان صریح نا شکرا ہے
مشرکین کا بدترین فعل تشریح : یہ تمام آیات ان بیوقوف لوگوں کی بےبنیاد باتوں کے جواب میں ہیں جو کفر و شرک کی دلدل میں پھنس کر الٹی سیدھی دلیلیں دیتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ دین اسلام اور اسے لے کر آنے والے حضرت محمد ﷺ سب جھوٹے ہیں اور اللہ پر الٹے سیدھے بہتان لگاتے ہیں۔ مثلاً پہلا بہتان کہ اللہ کی اولاد ہے۔ دوسرا یہ کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں تیسرا صرف اپنے باپ دادا کی دیکھا دیکھی مخلوق خدا کی ہی پرستش شروع کردی۔ چوتھا یہ کہ اللہ کی مرضی تھی تب ہی تو ہم اللہ کے سوا کسی اور کو پوجتے ہیں۔ یہ غلط ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو عقل اور ارادہ کی آزادی دے کر اس کو نیکی و بدی میں تمیز کرنے کے لیے رسول اور کتاب ہدایت دی۔ اپنے اختیار سے ہی وہ اچھا یا برا راستہ اپناتا ہے۔ اللہ نے بندے کی ہدایت کے لیے ہمیشہ رسول بھیجے جن کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ کو ایک مانو اور کسی کو اس کا شریک مت بناؤ۔ مگر پھر بھی یہ لوگ غلط باتیں کرتے ہیں، یہاں تک کہ خود تو بیٹوں کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اللہ کو بیٹیوں سے نوازتے ہیں۔ جب کہ ان کے خیال میں لڑکیوں کا پیدا ہونا نحوست ہے۔ یہ بھی کفار کی ایک بہت بڑی غلطی تھی کہ بیٹیوں کو نحوست سمجھتے تھے جبکہ عورت و مرد دونوں انسان ہونے اور ذمہ داریاں نبھانے کے لحاظ سے بالکل برابر ہیں۔ عورت کی ذمہ داری گھر کے اندر اور مرد کی گھر سے باہر مقرر ہوچکی ہے اور اسی لحاظ سے ان کی جسمانی ساخت اور جسمانی طاقت بنائی گئیـ ہے۔ اور اسی لیے مرد کو عورت کی نسبت زیادہ مضبوط کہا گیا ہے۔ لیکن اہل مکہ اسلام سے پہلے عورت اور بیٹی کو بڑا نچلا مقام دیتے تھے اسی لیے بیٹی کی پیدائش پر غم زدہ ہوجاتے بلکہ بیٹی کو مار ہی دیتے تھے۔ پھر ان کی اس دلیل کا جواب دیا گیا ہے کہ ہم تو صرف اپنے باپ دادا کی ہی پیروی کر رہے ہیں۔ تو ان کے جد امجد تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے ان کی تعلیم تو ہرگز شرک کی نہ تھی بلکہ انہوں نے تو توحید کی تعلیم دی تھی۔ جو ہمارے خالق ومالک کے معاملہ میں اصولی تصور ہے۔ اور اسی مخلوق کے معاملہ میں اصولی تصور ہے انسانیت یہ دونوں تصور انسان کو امن و سکون اور کامیابی کی راہ دکھاتے ہیں۔ یہی تصور یہی تعلیم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دی ہے اگر یہ لوگ باپ دادا کی تعلیم کو کہتے ہیں تو ان کی تعلیم کفر و شرک سے بہت دو رتھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بہترین انسان تھے اور اللہ کے انتہائی فرمانبردار نبی تھے۔ حالانکہ ان کے والد بت بنانے والے اور اردگرد تمام لوگ بت پرست تھے۔ مگر انہوں نے بڑی جرأت سے بتوں سے بیزاری اور توحید پر عمل کا اعلان کیا۔ ان کی یہ جرأت مندی اور اللہ سے محبت کی ادا اللہ کو اس قدر پسند آئی کہ آپ (علیہ السلام) کو آپ (علیہ السلام) کی آل اولاد کو توحید کا معلم قرار دے دیا اور ان کو تمام انسانوں پر فضیلت و برتری عطا کی جو رہتی دنیا تک برقرار رہے گی۔ آپ کو خلیل اللہ کا لقب ملا اور اپنے بعد آنے والے تمام نبیوں کے جد امجد کہلائے۔ جیسا کہ ہمیشہ کا دستور ہے کہ رسول کو طرح طرح کے الزامات دیئے جاتے رہے ہیں۔ آپ کو بھی اہل مکہ نے جادو گر وغیرہ کہا اور پھر یہ بھی کہ آپ ﷺ کی بجائے کسی بڑے مالدار کو نبی بنایا جاتا تو بات بھی تھی تو اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا رحمت خداوندی کے یہ مالک ہیں ؟ یہ نبوت کی نعمت تو صرف اس کو دی جاتی ہے جو سب سے زیادہ پاکیزہ، نیک فطرت اور پاکیزہ گھرانے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس میں دنیاوی جاہ و حشمت کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح ہر قسم کی عزت، طاقت مال و دولت غرض ہر چیز اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جسے جتنا چاہتا ہے دیتا ہے اگلی آیات اسی بارے میں ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
Top