Mafhoom-ul-Quran - Az-Zukhruf : 32
اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ١ؕ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا١ؕ وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ : کیا وہ تقسیم کرتے پھرتے ہیں رَحْمَتَ رَبِّكَ : رحمت تیرے رب کی نَحْنُ قَسَمْنَا : ہم نے تقسیم کی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان مَّعِيْشَتَهُمْ : ان کی معیشت فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی میں وَرَفَعْنَا : اور بلند کیا ہم نے بَعْضَهُمْ : ان میں سے بعض کو فَوْقَ بَعْضٍ : بعض پر دَرَجٰتٍ : درجوں میں لِّيَتَّخِذَ : تاکہ بنائیں بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض بَعْضًا سُخْرِيًّا : بعض کو خدمت گار۔ تابع دار وَرَحْمَتُ رَبِّكَ : اور رحمت تیرے رب کی خَيْرٌ : بہتر ہے مِّمَّا : ہراس چیز سے يَجْمَعُوْنَ : جو وہ جمع کررہے ہیں
کیا یہ لوگ تمہارے رب کی رحمت کو بانٹتے ہیں ؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے رب کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے
دنیا و آخرت کی بڑائی کفر و شرک کا انجام تشریح : ان آیات میں سب سے پہلے تو دنیاوی اور آخروی نعمتوں، برکتوں، مال و اسباب اور اجر وثواب کا مقابلہ کیا گیا ہے۔ اول تو مال و دولت اور درجات کی تقسیم اللہ تعالیٰ نے اپنے منصوبے، پروگرام اور نظام دنیا کی بہترین طریقہ سے چلانے کے لحاظ سے مقرر کر رکھا ہے۔ تفصیلات پہلے بھی گزر چکی ہیں۔ اگر ہم اپنے گھر کو دیکھیں تو مسئلہ بڑی آسانی سے سمجھ آسکتا ہے۔ مثلاً باہر کے کام مشکل ہوتے ہیں تو مرد کو جسمانی لحاظ سے مضبوط بنا دیا گھر کے اندر ہلکے اور نازک کام ہوتے ہیں تو عورت کو نرم و نازک اور نسبتاً کمزور طاقت والا بنا دیا گھر میں کام کاج میں مدد کے لیے کم حیثیت یعنی مالی لحاظ سے کمزور انسان بنا دیئے تاکہ وہ اپنی کمائی کا ذریعہ صبر و شکر سے چھوٹے موٹے کاموں کو بنا سکیں ذرا غور کریں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ گھر میں جہاں جس کی ضرورت تھی اسی لحاظ سے انسانوں کو مقرر کردیا گیا ہے۔ مرد کی جگہ عورت اور آقا کی جگہ خادم کام نہیں کرسکتا بالکل اسی طرح اللہ جل شانہ نے ہر شخص کو اس کی حیثیت سے مقرر کر رکھا ہے کیونکہ تمام دنیا کا نظام ایسے ہی ٹھیک چل سکتا ہے۔ پھر یہ بھی بتا دیا کہ یہ تمام درجات انسان کے امتحان کا ذریعہ ہیں۔ جو بھی اپنی ڈیوٹی نیک نیتی، خلوص، محبت اور حب الہٰی حاصل کرنے کے لیے صبر و شکر اور سنت و قرآن کے اصولوں کے مطابق ادا کرتا ہے تو گویا اس نے سب کچھ کما لیا۔ کیونکہ دنیا کے عیش و آرام مال و دولت اور اعمال تو آخرت کے عیش و آرام اور مال و دولت کی نسبت بالکل صفر کا درجہ رکھتے ہیں۔ دنیا کی غربت شیطان سے دور رکھنے کا ہتھیار ہے اور جنت میں پہلے داخل ہونے کی ضمانت ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ کہ اہل مال فقراء کے مقابلہ میں پانچ سو سال بعد جنت میں جائیں گے وہ حساب دیتے رہیں گے اور فقراء بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے “۔ (مشکوٰۃ ) ڈاکٹر ملک غلام مرتضی صاحب بڑے خوبصورت انداز سے اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ : ” دنیا کا مال و دولت تو اللہ کے ہاں اس قدر کم تر اور ناقدری کی چیز ہے کہ کافروں کو زیادہ دیتا ہے مگر اس کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ مومن اس سے محروم رکھے جائیں گے۔ کیونکہ مومن کی دلداری کی غرض سے ابھی تک کفار کا مال محدود ہے۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ ان کو اس قدر دے دیتا کہ ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی اور گھروں کے دروازے اور خوبگا ہیں سونے کی ہوتیں “۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت انس ؓ نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں فقر (تنگدستی) لوگوں کے ہاں عیب و نقص سمجھا جاتا ہے اور قیامت کے دن یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سبب زینت ہوگا۔ (یعنی فقر کی بدولت آدمی کو بہت بڑے اعزازو اکرام سے نوازا جائے گا) (کنز الاعمال بحوالہ گلستان قناعت) سب سے بڑا نقصان دنیاوی مال و دولت اور عیش و آرام کا یہ ہے کہ یہ اکثر ایسے نشہ کا باعث بنتا ہے کہ انسان کو اللہ سے دور کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اور یہی انسان کی بد نصیبی کا باعث ہوتا ہے۔ ایسا انسان بڑی آسانی سے نفس کا تابع ہوجاتا ہے اور یہی وہ شیطان ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت 36 میں کیا ہے۔ مال کی محبت میں ایسا شخص حلال و حرام کی پہچان بھول جاتا ہے اور جب ایک دفعہ بھولتا ہے تو پھر یہ بھول جانا اس کی عادت بن جاتا ہے اور یوں وہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی وہ کر رہا ہے ٹھیک کر رہا ہے یعنی اچھائی اور برائی میں فرق کرنا اس کیلئے مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی کے لیے کہا گیا ہے کہ شیطان ان کو رستے سے روکتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیدھے رستے پر ہیں “ (آیت 37) یہ انسانی فطرت ہے کہ اگر ایک دفعہ برا کام کرلے تو پھر وہ برائی کی راہوں پر چلنے لگتا ہے اور اس کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ برائی کی راہیں اختیار کرچکا ہے اس لیے کوئی چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ اور اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر میں مشغول رہے۔ عبد اللہ بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ شریعت کے احکام تو بہت سے ہیں لیکن مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجئے جس کو میں اپنا مشغلہ بنا لوں “۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : تیری زبان ہر وقت ذکر اللہ سے تر و تازہ رہے۔ (ابن ماجہ) سیدھی اور آسان سی بات ہے جب کوئی شحض اللہ سے غافل ہو کر زندگی گزارتا ہے تو اس کو یہ نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ وہ شیطان کے قبضہ میں آجاتا ہے۔ اللہ کے شکر کی بجائے نا شکری کرتا ہے۔ اس کا دل قناعت اور توکل سے بالکل خالی ہوجاتا ہے۔ دنیاوی ترقی اور تنزل کی فکر میں ہر وقت پریشان رہتا ہے۔ سکون اور امن کی نعمت سے دل دماغ بالکل خالی ہوجاتا ہے موت اور مال کے نقصان کی فکر سے راتوں کی نیندیں ختم ہوجاتی ہیں اور پھر وہ اس قدر عاجز آجاتا ہے کہ موت کی تمنا کرنے لگتا ہے۔ جبکہ ذکر الہٰی کرنے والے شخص کی زندگی اس کے بالکل خلاف ہوتی ہے ہم ایک حدیث سے اس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا وہ آدمی جو اللہ کو یاد کرتا ہے اور وہ آدمی جو یاد الہٰی سے غافل ہے ان کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے یعنی جو بندہ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے وہ زندہ دل ہے اور جو ذکر نہیں کرتا اس کا دل مرجاتا ہے “۔ (بخاری و مسلم) ایسے لوگ جن کے دل میں یاد الٰہی اور زبان سے ذکر الہٰی ہوتا رہے وہ اللہ کے مقبول ترین انسان بن جاتے ہیں یہاں تک کہ اللہ کا نور ان کے چہروں پر دکھائی دینے لگتا ہے۔ جو اس کے علاوہ راستے اختیار کرتے ہیں تو انہی لوگوں کے لیے اللہ فرماتا ہے : اور جب تم ظلم کرتے رہے تو آج تمہیں یہ بات فائدہ نہیں دے سکتی کہ تم سب عذاب میں شریک ہو “۔ (آیت 39) دعا ہے : الٰہی مجھے اس گروہ میں شامل کر جو کثرت سے توبہ کرتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرتا ہے۔ آمین
Top