Mafhoom-ul-Quran - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ ذَكَرٍ : ایک مرد سے وَّاُنْثٰى : اور ایک عورت وَجَعَلْنٰكُمْ : اور بنایا تمہیں شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ : ذاتیں اور قبیلے لِتَعَارَفُوْا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِنَّ اَكْرَمَكُمْ : بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اَتْقٰىكُمْ ۭ : تم میں سب سے بڑا پرہیزگار اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا خَبِيْرٌ : باخبر
لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ اصل میں اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
برتری صرف تقویٰ میں ہے تشریح : باقی تمام مذاہب کی تعلیمات کسی خاص قبیلے یا ملت کے لیے ہوتی تھیں لیکن اسلام پوری دنیا کے لیے ہدایت اور نیکی و نجات کا پیغام لے کر آیا ہے۔ اس دین کی خاصیت ہی یہ ہے کہ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے دائرے یعنی یہ امیر ہے غریب ہے کالا ہے، گورا ہے، یہودی ہے، عیسائی ہے۔ ان تمام اونچ نیچ اور تفرقات کو بالکل نہیں مانتا کیونکہ یہ عالمگیر دین ہے۔ اس چھوٹی سی آیت میں اللہ رب العزت نے صاف صاف اعلان کردیا ہے اور انسانوں کو ان کی اصل حقیقت سے مطلع کردیا ہے۔ پہلی یہ کہ تم لوگ ایک مادے سے ایک طریقہ سے اور ایک ہی مرد اور عورت یعنی حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) سے پیدا کیے گئے ہو۔ جیسے ایک گھر کے افراد آپس میں کچھ کچھ مختلف ہوتے ہیں اسی طرح آدم (علیہ السلام) کی اولاد جب بڑھنی شروع ہوئی تو دور دراز تک پھیلنے لگی اور ان میں دنیا کے گرم سرد خطوں کی آب و ہوا کے مطابق رنگ روپ نقش اور رہن سہن میں فرق پیدا ہوتا چلا گیا۔ قرآن میں دوسری یہی وضاحت کی گئیـ ہے کہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ پہچان کے لیے تم قوموں قبیلوں اور برادریوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے جس طرح ایک خاندان کی بیٹیاں دوسرے خاندان میں بیاہی جاتی ہیں اور پھر وہی بیٹیاں جو ہمیشہ ساتھ رہتی تھیں بعد میں اپنے سسرال اور بچوں کے ساتھ اتنی مصروف ہوجاتی ہیں کہ مدتوں بعد اپنی بہنوں اور میکا میں آتی ہیں یہ ایک دوری پیدا ہونا ضروری عمل ہے۔ مگر یہ دوری مجبوری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان کی اصل میں فرق آجائے۔ اسی لیے تیسری بات اللہ رب العزت نے یہ واضح کردی ہے کہ تم سب کہیں بھی چلے جاؤ، کیسے ہی رہن سہن ہو۔ غریب ہو، امیر ہو، کالے ہو، گورے ہو۔ سب برابر ہو کسی کو کسی پر برتری اگر ہوسکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ برائیوں سے بچنے والا ہو۔ نیکی، پاکیزگی میں پکا سچا مسلمان ہو۔ یہ تین باتیں ہیں جن کا خیال رکھنا ہر انسان کا فرض ہے۔ انسانیت کی بنیاد ان پر ہی قائم ہے اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے موقع پر یہی اعلان کیا کہ سب لوگ برابر ہیں کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں سوائے تقویٰ اور پرہیزگاری کے۔ حدیث میں آتا ہے۔ ” اللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ”۔ (ابن جریر) از تفہیم القرآن صفحہ 98 جلد پنجم۔ ایک مسئلہ اور بھی ہے جو اس آیت کریمہ میں حل ہوگیا۔ دنیا جہاں کے مفکر سائنسدان، ڈاکٹر حضرات اور ریسرچ کرنے والے لوگوں کو انسان کی پیدائش کے سلسلہ میں بہت زیادہ فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ انسان آدم و حوا (علیہما السلام) سے پیدا ہوا اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور رضا ہے کہ اس نے مٹی سے آدم کا پتلا بنایا اور اس میں اپنی روح پھونک دی پھر حضرت حوا کو پیدا کیا اور اس کے بعد دنیا کی آبادی بڑھنی شروع ہوگئی۔ اب انسان کی پیدائش کا ہر مرحلہ انسان کے سامنے ہے اور یہ بھی اسی الہ العٰلمین کی قدرت کا نتیجہ ہے۔ ہر طرف انسانوں کی چلتی پھرتی فیکٹریاں اللہ کے وجود اس کی قدرت اور موجودگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور پھر اسلام کے دشمنوں کو بھی یہ ماننا پڑا ہے کہ جو اصول و قوانین مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے دئیے گئے ہیں وہ اور کسی دین اور مذہب کو نہیں دئیے گئے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے تمام نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک ملت بنا دیا ہے۔ اور پھر باربارتاکید کی جا رہی ہے کہ اسلام کے دئیے ہوئے اصولوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو۔ صرف مسلمان کے گھر پیدا ہوجانا ہی کافی نہیں۔ جیسا کہ اگلی آیات میں وضاحت کی گئی ہے۔
Top