Mafhoom-ul-Quran - Al-Hujuraat : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُنَادُوْنَكَ : آپ کو پکارتے ہیں مِنْ وَّرَآءِ : باہر سے الْحُجُرٰتِ : حجروں اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
اے نبی ﷺ جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں۔
معاشرتی آداب تشریح : یہ مدنی سورت ہے اخلاقی آداب کے سلسلے میں یہاں ایک شائستہ ادب سکھایا جا رہا ہے۔ شان نزول اس آیت کا اسطرح ہے کہ عموماً اطراف عرب سے لوگ آپ ﷺ سے ملنے چلے آتے اور وہ اس بات کا خیال نہ کرتے تھے کہ ملنے کے لیے وقت مناسب ہے یا کہ نہیں۔ بس وہ وقت بےوقت آجاتے اور حجرات نبوی کا چکر کاٹنے لگتے اور بےادب جاہلوں کی طرح باہر سے آوازیں لگانے لگتے۔ یا محمد یامحمد حالانکہ ان کو مہذب شہریوں کی طرح اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا کہ بجائے آپ ﷺ کو بےآرام کرنے کے اس وقت کا انتظار کرتے جب کہ آپ ﷺ آرام سے فارغ ہو کر باہر تشریف لے آتے تو پھر آپ سے ملاقات کرتے بات چیت کرتے۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ بڑے ہی نرم مزاج اور انسان دوست شخص تھے اور پھر اللہ کی اجازت سے ہر کام کرنا پسند کرتے تھے۔ لہٰذا ان لوگوں کی اس بےوقت مداخلت کو برداشت کرتے رہے تو پھر اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی اور ہدایت کی کہ اس ناشائستہ حرکت سے باز آجائیں۔ اب تک لا علمی میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ معاف ہے مگر آئندہ اس زرین اصول کو یاد رکھیں۔ پچھلا عمل معاف ہے کیونکہ اللہ کی صفت ہے کہ وہ معاف کرنے کو پسند کرتا ہے مگر آئندہ احتیاط کریں۔ آج کل کی مہذب دنیا میں باہر سے گھر والوں کو آوازیں لگا لگا کر بلانا بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے اس اخلاقی و معاشرتی اصول کا حکم دیا اور یہاں وقت کا بھی ذکر کیا گیا کہ جب بھی کسی سے ملاقات کرنی ہو تو مہمان کو میزبان کے آرام کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ اور پھر یہ بھی ہدایت ملتی ہے کہ جان بوجھ کر غلطی یا گناہ کرنا سزا کا موجب ہے۔ نادانی میں کیا گیا قصور رب العزت ویسے ہی معاف کردیتے ہیں کیونکہ معاف کرنا درگزر کرنا اللہ کی صفات ہیں۔
Top