Mafhoom-ul-Quran - Al-Maaida : 120
لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا فِیْهِنَّ١ؕ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور مَا : جو فِيْهِنَّ : ان کے درمیان وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا۔ قادر
آسمانوں اور زمین میں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
خلاصہ سورة الما ئدہ اس میں قانون کی پابندی، قانون بنانے والے (اللہ تعالیٰ ) کی فرمانبرداری اور اللہ کا قانون بتانے والے (نبی آخرمحمد رسول اللہ ﷺ کی عزت، احترام اور فرمانبرداری پر سختی سے پابند رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ قانون اللہ نے بنائے ہیں ان کو نافذ کرنا اور ان کی حفاظت کرنا، ان پر عمل کرنا پوری امت کی ذمہ داری ہے۔ پچھلی امتوں کی غفلت، نافرمانی اور انجام ہمارے سامنے ہے اس سے عبرت حاصل کر کے خود کو نقصان سے بچانا چاہیے۔ کیونکہ سوسائٹی کا بگاڑ انسان اور پوری امت کو تباہی سے دو چار کردیتا ہے۔ قیامت کے دن سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے اس لیے سب سے پہلے سوال کیا جائے گا کیونکہ ان کی امت انسانی سوسائٹی کو بگاڑنے کی سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔ ان کے حالات و واقعات سے بعد کی امت کو عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ ان تمام راستوں سے بچ کر رہنا چاہیے جن کی جہ سے یہود و نصارٰی نے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لی اور دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار ہوئے۔ توحید پر یقین، قرآن سیکھنا اور اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو سکھانا یہ ہر مسلمان کا فرض ہونا چاہیے اسی میں نجات ہے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین۔ اس سورت میں انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے گمراہی کے اسباب بیان کئے گئے ہیں جن میں سب سے پہلا سبب جمہوریت ہے کیوں کہ کثرت بےعلم لوگوں کی بھی ہوسکتی ہے جب کہ ایک عالم دس جاہلوں پر بھاری ہوسکتا ہے اس لیے کثرت حق اور سچ کا معیار نہیں ہوسکتی، دوسرا سبب گمراہی کے رسم و رواج ہیں جو کہ بغیر سوچے سمجھے باپ دادا کی دیکھا دیکھی کئے جاتے ہیں یہ بڑی خرابیوں کا باعث بنتے ہیں اس لیے اسلام میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ تیسرا سبب گمراہی کا، عیب چینی ہے یعنی خود کو نہ دیکھنا اور دوسرے پر اعتراضات کرتے چلے جانا۔ پھر اس سورت کا نام ہے مائدہ، یعنی دستر خوان۔ یہ ایک معجزہ کی فرمائش بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے کی تھی کہ ہمیں آسمان سے سجا ہوا دستر خوان چاہیے حالانکہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ان کو کئی معجزے دکھا چکے تھے تو وہ ایمان نہ لائے اب اس معجزے کی فرمائش بھی بس یونہی کردی۔ مائدہ کی فرمائش پر اللہ رب العزت نے ان کو خبردار کیا تھا کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لائے تو پھر ایسی سزا ملے گی جیسی پہلے کسی کو نہ ملی ہوگی اور پھر ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ دنیا و آخرت میں ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہوگئے۔ نجات کا راستہ اللہ تعالیٰ نے سچائی بتایا ہے۔ دنیا و آخرت میں نجات ہوگی تو صرف اس کی ہوگی جس نے راست بازی کی زندگی گزاری ہوگی۔ اللہ کی قربت، دنیا میں سکون اور آخرت میں جنت کا انعام صرف راست باز، پاکباز، نیک، مخلص اور سچے مسلمان کو ہی ملتا ہے یہ اللہ کا وعدہ ہے جو کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ اعمال کے بدلے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس وقت جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ” لو دیکھو میرا نامہ اعمال پڑھ لو میرا تو یہ عقیدہ تھا کہ مجھے میرا حساب ضرور ملے گا۔ تو وہ شخص اپنی مرضی کے عیش میں ہوگا۔ اونچے درجہ کی جنت میں جس کے پھلوں کے گچھے جھکے جا رہے ہوں گے۔ (ان سے کہا جائے گا) کھائو اور پیو مزے کے ساتھ یہ بدلہ ہے ان اعمال کا جو تم گزرے ہوئے دنوں میں کرچکے ہو۔ “ ( الحاقہ آیات : 19 سے 24 )
Top