Mafhoom-ul-Quran - Al-Maaida : 62
وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَتَرٰى : اور تو دیکھے گا كَثِيْرًا : بہت مِّنْهُمْ : ان سے يُسَارِعُوْنَ : وہ جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور سرکشی وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
اور ان میں سے اکثر کو آپ دیکھیں گے کہ دوڑتے ہیں گناہ، ظلم اور حرام کھانے پر یہ سب بہت برے کام ہیں جو یہ کر رہے ہیں۔
یہودی علماء کی فرض سے کوتاہی تشریح : اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ جب کوئی قوم برائیوں میں حد سے گزر جاتی ہے تو پھر اس قوم کے علماء اور فقہاء بھی قوم کی بےراہروی میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وہ خود قوم سے زیادہ عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا تو فرض یا منصب ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو نیکی کی راہ دکھائیں تو ان اہل کتاب کا درجہ اس قدر گرگیا ہے کہ فقہاء میں بھی وہی صفات، یعنی برائیاں پیدا ہوچکی ہیں جو اوپر بیان کی جاچکی ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ علماء کا ہی زیادہ قصور ہے۔ اللہ رب العزت ہمارے علماء و فقہاء کو دین کی مضبوطی اور قوم کی صحیح رہنمائی کرنے کی پوری صلاحیت عطا کرے کہ ہم اللہ کے غضب سے بچ سکیں۔
Top