Mafhoom-ul-Quran - Al-Maaida : 83
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ١ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذَا : اور جب سَمِعُوْا : سنتے ہیں مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَى : طرف الرَّسُوْلِ : رسول تَرٰٓي : تو دیکھے اَعْيُنَهُمْ : ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ پڑتی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو مِمَّا : اس (وجہ سے) عَرَفُوْا : انہوں نے پہچان لیا مِنَ : سے۔ کو الْحَقِّ : حق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاكْتُبْنَا : پس ہمیں لکھ لے مَعَ : ساتھ الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
جب وہ اسے سنتے ہیں جو رسول ﷺ پر اترا تو حق شناسی کی وجہ سے ان کی آنکھیں تر ہوجاتی ہیں۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ پروردگار ! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
نصارٰی کے ایک گروہ کی کیفیت ایمان اور ان کی جزا تشریح : پچھلی آیات میں نصارٰی کو یہود سے بہتر کہا گیا ہے۔ ان آیات کا شان نزول یوں بیان کیا جاتا ہے کہ مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے کچھ لوگ حبشہ ہجرت کر گئے تھے تو وہاں مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہ دی گئی بلکہ حبشہ کا بادشاہ نجاشی اور اس کے ساتھی قرآن سن کر روئے، پھر ستر نو مسلم آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے قرآن پاک سن کر ان کے دل اس قدر نرم ہوئے اور متاثر ہوئے کہ سب کے سب رونے لگے۔ یہی وہ پیارے لوگ ہیں جنہوں نے خوبصورت اور حق کی باتیں کیں، جیسا کہ آیات میں بتایا گیا ہے۔ رب کریم نے ان کو بہشت کی خوشخبری دی کیونکہ انہوں نے دل سے توحید کو قبول کیا، حالانکہ یہ بھی نصارٰی ہی میں سے تھے۔ پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ جو بدنصیب ایمان کی نعمت سے محروم رہے تو ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمان خود اپنے اعمال، کردار اور نیتوں پر غور کریں کہ کہیں ہم بھی تو ان بدنصیبوں کے راستے پر نہیں چل رہے۔ ہم بیشک مسلمان تو ضرور ہیں، سوچنا یہ ہے کہ آیا ہمارے اندر مسلمانوں کی صفات بھی موجود ہیں یا کہ نہیں اگر کہیں بھی کوئی کمی دکھائی دے تو اسے فوراً دور کردینا چاہیے اور سچے مسلمان بن کر خود بھی زندگی گزاریں، دوسروں کو بھی سکھائیں، اسی طرح پورا معاشرہ اسلامی معاشرہ صاف ہوجاتا ہے۔
Top