Mafhoom-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 15
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی (جمع) فِيْ جَنّٰتٍ : باغات میں وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بیشک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں عیش کر رہے ہوں گے۔
پرہیز گاروں کی بہترین زندگیاں تشریح : کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک ایسی ہستی کی بات جس نے ہمیں پیدا کیا اور یہ انتہائی عجیب، مشکل اور پیچیدہ کام ہے پھر ہمارے آرام و آسائش اور نشوونما کے لیے اتنی بڑی کائنات جو ایسے ایسے عجیب و غریب اجرام فلکیات سے زمینی نعمتوں سے ہواؤں سے جو کہ بیشمار فوائد کا ذریعہ ہیں اسی طرح ان گنت چیزیں جو ہمارے اردگرد اوپر نیچے بیشمار پھیلی ہوئی ہیں جو ہر صورت اپنی بناوٹ سجاوٹ اور فائدوں کے ذریعے اپنے خالق ومالک کی بڑائی کا اظہار کر رہی ہیں۔ بھلا وہ جو بات بتاتا ہے وہ کیونکر غلط ہوسکتی ہے ؟ ہرگز غلط نہیں ہوسکتی بلکہ اس میں تو شک و شبہ کا ایک ذرہ برابر بھی امکان نہیں۔ یہی وہ یقین و ایمان ہے جو پرہیزگار لوگ رکھتے ہیں۔ جن کی تعریف متقین کہہ کر کی گئی ہے۔ یعنی ڈرنے والے اور بچنے والے۔ کس سے ڈرنا اور بچنا ؟ اپنے معبود برحق الہ العٰلمین اور رب العٰلمین کی ناراضگی سے ڈرنا اور بچنا۔ اس ڈرنے اور بچنے کا درجہ اتنا بڑا آخر کیوں رکھا گیا ہے کہ متقین کو دنیا کی اس چھوٹی سی زندگی کے بعد آخرت میں اس قدر بہترین انعامات دئیے جائیں گے ؟ کیونکہ وہ آخرت کے دن پر انصاف کے دن پر پورا یقین رکھتے ہیں یہ یقین ہی انسان کے لیے سب سے بڑا رہبر، استاد، چوکیدار اور لیڈر ثابت ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی دنیاوی زندگی کے عیش و آرام میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ صرف اللہ ہی بےحد رحم کرنے والا، شفقت کرنے والا اور ہر مشکل میں مدد کرنے والا ہے رحمتوں اور برکتوں کا سر چشمہ صرف اللہ ہی ہے اور انسان کی کامیابی کا سرچشمہ بھی صرف تقویٰ ہی ہے۔ ” اللہ تو متقیوں کی نذریں قبول کرتا ہے “۔ ” بیشک اللہ متقیوں کو محبوب رکھتا ہے “۔ ” جنت تو تیار ہی متقین کے لیے کی گئی ہے “۔ (القرآن) ” ایسے ہی لوگ نیکیاں کرتے ہیں رات کے تھوڑے حصے میں سوتے ہیں سحری کے اوقات میں بخشش مانگا کرتے ہیں اور مال میں سے مانگنے والے اور نہ مانگنے والوں کا حق ادا کرتے ہیں “۔ (آیات 19, 18, 17) جب آدمی اپنے مالک کا اس قدر فرمانبردار ہوجاتا ہے تو پھر بھلا وہ مہربان خوش ہو کر اس کو دنیا و آخرت کی نعمتوں، برکتوں اور آسائشوں سے مالا مال کیوں نہ کرے گا۔ اس لیے تقویٰ کی راہ ہی بہترین ہے اخلاق کے ماہرین کہتے ہیں کہ ” انسان کی زندگی جانوروں جیسی نہیں۔ انسان کا زندگی گزارنے کا خاص مقصد ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے، فضائل و اخلاق کی بلندی، تقویٰ کی پابندی۔ اور یہ راستہ آسان نہیں لیکن اگر نیت صاف ہو، اللہ کی محبت ہی سب کچھ ہو اور انصاف کے دن پر یقین ہو تو منزل پالینا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ بلکہ زندگی میں سے ڈر، خوف اور حزن و ملال سب کچھ دور ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔” جو تقویٰ اختیار کرے اور اپنی حالت درست کرے، ایسے لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ حزن “۔ (الاعراف آیت 35) حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” اللہ سے ڈرو جہاں کہیں بھی تم ہو اور (اگر) برائی (ہو جائے تو اس) کے بعد نیکی کرلیا کرو، وہ (نیکی) اس (برائی) کو مٹا دے گی۔ اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آیا کرو ”۔ (ترمذی از اسوہ حسنہ) اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام جن لوگوں کے دلوں میں اتر جاتا ہے وہ انہیں رحمت اور سلامتی کا پیکر بنا دیتا ہے۔ سچ ہے کہ متقی کا چہرہ پر نور اور اس کی زندگی سب کے لیے رشد و ہدایت کا روشن چراغ ہوتا ہے۔ آخر میں اللہ کی حاکمیت اور نظام کائنات اور حسن تدبیر کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے کس عمدگی کے ساتھ ہر بندے بشر تمام مخلوقات کا رزق اور نصیب یعنی تقدیرلوح محفوظ میں لکھ کر رکھ چھوڑی ہے کہ وہ ہر ناممکن کام کو کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ تو ایسے قادر مطلق کی قسم کہ قیامت کا دن ضرور آئے گا۔ جزا و سزا ضرور دی جائے گی اور جنت و دوزخ کا وعدہ بالکل پکا اور سچا ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں۔ اگر وہ تمہیں ایک بوند پانی سے پیدا کر کے زندگی کے مختلف مراحل سے گزار کر جوان بوڑھا کرسکتا ہے تو بھلا اس کے لیے یہ کیسے مشکل ہے کہ اپنا کیا ہوا وعدہ پورا نہ کرے تمہیں دوبارہ زندہ کر کے بدلہ نہ دے ؟ یہ ضرور ہوگا۔ ایک تو خود ہماری زندگی جینا مرنا اس کی کھلی مثال ہے۔
Top