Mafhoom-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 31
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ
قَالَ : کہا فَمَا خَطْبُكُمْ : تو کیا قصہ ہے تمہارا اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ : اے فرشتو۔ بھیجے ہوؤں
ابراہیم (علیہ السلام) نے) کہا کہ ' اے فرشتو ! تمہارا کیا مطلب ہے ؟
نافرمان اقوام پر عذاب اِلٰہی تشریح : تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ وہ فرشتے جو انسانوں کی شکل میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بیٹے کی خوشخبری لائے تھے وہ اسرافیل جبرئیل اور میکائیل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ حکمت والا اور علم والا ہے۔ تم جس عزت و اکرام کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے۔ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ( صفحہ 95) پھر ان قوموں کا ذکر دہرایا گیا ہے کہ جو اپنی نافرمانی، ہٹ دھرمی اور کفر وشرک کی سزا میں نیست و نابود کردی گئیں جن میں قوم نوح (علیہ السلام) طوفان سے برباد ہوئی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم جن پر پتھروں کا عذاب آیا۔ پھر فرعون اور اس کی قوم کا ذکر ہے۔ ان کو پانی میں ڈبو دیا گیا اور فرعون کو عبرت کا نشان بنانے کیلئے مردہ لاش کی صورت میں دنیا کے سامنے موجود رکھا گیا ہے۔ اسی طرح قوم عاد کو زوردارآندھی سے تباہ و برباد کردیا گیا۔ اسی طرح قوم ثمود بھی شدید کڑک کی خوفناک آواز سے نیست و نابود کردی گئی۔ ان کی تباہ شدہ بستیاں اور ان کے عبرت ناک حالات دنیا کے سامنے موجود رکھے گئے ہیں تاکہ لوگ ان سے سبق سیکھیں اور اچھی طرح جان لیں اللہ اگر رحیم و کریم ہے تو جبار و قھار بھی ہے۔ وہ کسی سے بےانصافی نہیں کرتا مگر جو حد سے بڑھ جائیں نافرمان ہوجائیں تو پھر اللہ بڑی قدرت والا ہے وہ فرمانبرداروں کو انعامات اور نافرمانوں کو عذاب دیتا ہے اس جہاں میں تباہ و برباد کر کے اور دوسرے جہاں یعنی آخرت میں تو شدید عذاب کا پیغام بار بار دیا گیا ہے۔ یہ سب لوگ بھی اسی طرح غفلت اور عیاشی میں پڑے ہوئے تھے جس طرح آج کل کے کفار و مشرکین غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ اور آج کے لوگ کبھی سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان کو یوں اللہ تعالیٰ اپنی نظر میں رکھے ہوئے ہے۔ بلکہ وہ تو طاقت عزت مال و اولاد اور دولت کے نشے میں یہ تک بھولے ہوئے ہیں کہ ان کو جس نے پیدا کیا ہے وہ ان کو اپنے دربار میں ضرور حاضر کرے گا اور پھر ان کے اعمال کے مطابق دوزخ یا جنت ضرور ملے گی۔ فرمانبردارلوگوں کو تو خوب خیال ہے۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے ہر صورت نیکی کا راستہ اختیار کرتے ہیں مگر نافرمان لوگ یہاں بھی بےسکون اور وہاں بھی بےسکون رہیں گے۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ ہر شخص آخرت پر اور اپنی موت پر نگاہ رکھے تو پتہ چلتا ہے کہ ہم تو کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے پھر اکڑناغرور کرنا اور نافرمانی کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ غیب کی کوئی خبر کوئی انسان نہیں رکھتا یہ سب خبریں تو ثبوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ قرآن پاک کے ذریعے ہم کو دی ہیں۔ ہمارا کام ہے ان پر دل و جان سے یقین کریں اور سچے اور پکے مسلمان بن کر زندگیاں گزاریں۔ نہ جا اس کے تحمل پر کہ بےڈھب ہے گرفت اس کی ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا ہوئی ختم اس کی حجت اس زمین کے بسنے والوں پر کہ پہنچایا ہے ان سب تک محمد ﷺ نے کلام اس کا مولانا ظفر علی خان
Top