Mafhoom-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 7
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْحُبُكِۙ
وَالسَّمَآءِ : اور قسم ہے آسمانوں کی ذَاتِ الْحُبُكِ : راستوں والے
اور آسمان کی قسم جس میں جال دار رستے ہیں
آسمان کی قسم، اور قیامت کا عذاب تشریح : جیسا کہ قرآن مجید کا یہ انداز ہے کہ چلتے چلتے ہلکے پھلکے جملوں میں رشد و ہدایت، ڈراوے اور انعام، حکمت و دانائی اور کائنات کے بڑے بڑے رازوں کی طرف اشارہ کردیتا ہے۔ یہاں بھی آسمانوں کی قسم کھاتے ہوئے آخرت کے دن، سزا و جزا اور خوفناک سزا کا ذکر کردیا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آسمانوں کی قسم کیوں کھائی۔ یہ اس لیے کہ ہواؤں کی طرح آسمان بھی کائنات کے اجزاء میں سے ایک نہایت اہم جز ہے۔ اور پھر آسمان کی خاصیتوں میں سے ایک خاصیت کا ذکر یوں کردیا کہ ” جس میں جال دار راستے ہیں “۔ (آیت 7) اس کو سمجھنے کے لیے ہم موریس بو کائیے کی کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔” جدید فلکیات کے بموجب کائنات میں مادہ کے بیشمار لمبے چوڑے بادل بکھرے ہوئے ہیں جن کو ماورائے کہکشانی سدیم کہا جاتا ہے، ان سدیموں میں سے بعض ابھی دخان کی شکل میں ہیں اور بعض میں مادہ منجمد ہو کر ستاروں کی شکل اختیار کر گیا ہے ہمارا کہکشانی جہان بھی ایسا ہی ایک سدیم ہے جس کا مادہ منجمد ہو کر مختلف سائز کے ستارے بن گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان ستاروں کی تعدادایک کھرب ہے۔ ہمارے کہکشانی جہان کی شکل چکی کے پاٹ کی سی ہے۔ اس پاٹ کا قطر تقریباً ایک لاکھ نوری سال ہے اور موٹائی 20 ہزار نوری سال ہے کہکشانی جہان کے مرکز پر ستاروں کا ہجوم سب سے زیادہ ہے۔ ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے جو اس کہکشانی جہان کے مرکز سے تقریباً 20 ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اور دوسرے ستاروں کی طرح اس کے مرکز کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ جس راستے پر سورج چل رہا ہے وہی اس کا مدار ہے یہ مدار اتنا لمبا ہے کہ سورج اپنی سرعت رفتار کے باوجود اس مدار پر ایک چکر 22 کروڑ سال میں پورا کرتا ہے ”۔ (از بائیبل قرآن اور سائنس) یہ تو ایک بڑے ہی معمولی راستہ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ کائنات جو کہ بےحد و حساب وسیع و عریض ہے اور اس میں بیشمار ستاروں، سیاروں اور نہ جانے کیا کیا چیزیں ہیں جن کا جال بچھا ہوا ہے۔ سب آپس میں ملے ہوئے مگر روشن راستے بنائے ہوئے اپنے اپنے راستے پر چلتے چلے جا رہے ہیں۔ سبحان اللہ، اللہ اکبر کیا شان ہے اس کی ؟ کس حکمت اور کاریگری کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ سب اجرام فلکی ! مگر یہ سب اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے، چل رہے ہیں اور آخر کار اللہ کے حکم سے ختم بھی ہوجائیں گے کیونکہ ہر چیز کا فنا ہوجانا اور کسی دوسری شکل میں تبدیل ہوجانا یہ سب اللہ کے نظام میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ بہت بڑی مثال دے کر اہل مکہ اور تمام مخلوق خدا کو یہ یقین دلا رہا ہے کہ اسی طرح تم لوگ بھی ختم ہوتے رہتے ہو مگر تمہارا یہ ختم ہونا صرف جسمانی لحاظ سے ہے کیونکہ تمہاری روحیں موجود رہتی ہیں اور جب اللہ کا حکم ہوگا قیامت برپا ہوگی تو پھر تم سب زندہ ہو کر اللہ کے حضور سزا و جزا کے لیے اکٹھے کیے جاؤگے۔ تو اس بات کا یقین تم ابھی کرلو اور خواہ مخواہ جھگڑے میں نہ پڑو۔ اس دن تمہیں اپنے اس سوال کا جواب مل جائے گا کہ ” جزا کا دن کب ہوگا “ ؟ پھر اس دردناک عذاب کا ذکر ہے جو بار بار قرآن پاک میں بڑا واضح کر کے بتایا گیا ہے۔ استغفر اللہ اور عذاب کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے کہ ” جس دن وہ آگ پر الٹے سیدھے پڑیں گے “ (آیت 13) جو لوگ بھی ان خبروں کو جو قرآن میں دی گئی ہیں سچ سمجھتے ہیں اور آخرت پر یقین کر کے دنیا کی زندگی قرآنی علم و عمل سے گزارتے ہیں بیشک وہ ایسے ہی مبارک لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن پاک ان الفاظ میں کرتا ہے۔
Top