Mafhoom-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 19
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِۙ
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ : اس نے چھوڑ دیا دو سمندروں کو يَلْتَقِيٰنِ : کہ دونوں باہم مل جائیں
اسی نے دو دریا رواں کئے ہیں جو آپس میں ملتے ہیں
سمندر اور دریا اپنی بناوٹ میں حیران کن ہیں تشریح : ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب نے 19 اور 20 آیات کی تشریح بےحد خوبصورت الفاظ میں کی ہے ملاحظہ ہو لکھتے ہیں۔ آیات میں دو اہم نکات کو بیان کی گیا ہے۔ 1 دو سمندروں کا strait کے ذریعے آپس میں ملنا بہر حال یہ ایک معمول کی حالت ہے۔ 2 ۔ یہ حقیقت کہ دو سمندران کے درمیان ایک خاص قسم کی رکاوٹ کی وجہ سے مکمل طور پر آپس میں نہیں مل سکتے۔ آئیے اس سلسلے میں سب سے پہلے سائنسی نکات کا مطالعہ کریں۔ فرانسیسی سائنسدان جیکوی کو سٹو نے جو سمندر کے اندر پانی کی تحقیقات کے لیے مشہور ہے، یہ دریافت کیا کہ بحرہ روم اور بحرہ اوقیانوس کیمیاوی اور حیاتیات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ موصوف نے اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے ” آبنائے جبرالٹر “ کے نزدیک زیر سمندر تحقیقات کر کے یہ بتایا کہ جبل الطارق کے جنوبی ساحلوں (مراکش) اور شمالی ساحلوں (اسپین) پر بالکل غیر متوقع طور پر میٹھے تازہ پانی کے چشمے ابلتے ہیں۔ یہ سمندری پانیوں میں ہوتے ہیں یہ بہت بڑے چشمے ایک دوسرے کی طرف 45 ڈگری کے زاویہ پر تیزی سے بڑھتے ہوئے ایک ڈیم کی طرح کنگھی کے دندانوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے بحیرہ روم اور بحرہ اوقیانوس اندر سے ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے۔ درحقیقت، اس تحقیق کے بعد جب کو سٹو Corsteau کو یہ آیات دکھائی گئیں تو بےحد حیران ہوا اور قرآن کی عظمت کی تعریف کرتے ہوئے مسلمان ہوگیا۔ اس حیران کن آیت کریمہ میں جبل الطارق (جبرالٹر) کی باڑ کو بالکل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) مولانا وحید الدین خان صاحب بڑی خوبصورت وضاحت کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ' یہ بات قدیم ترین زمانے سے انسان کے مشاہدے میں آچکی ہے مگر یہ کس قانون فطرت کے تحت واقع ہوتا ہے ؟ یہ ابھی حال ہی میں دریافت کیا گیا ہے، جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ رقیق اشیاء میں سطحی تناؤ کا ایک خاص قانون ہے، اور یہی دونوں قسم کے پانی کو الگ الگ رکھتا ہے کیونکہ دونوں سیالوں کا تناؤ مختلف ہوتا ہے، اس لیے وہ دونوں کو اپنی اپنی حد میں روکے رہتا ہے، آج کل اس قانون کے تحت جدید دنیا نے بیشمار فوائد حاصل کیے ہیں۔ اس سطحی قانون کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھئے، اگر آپ گلاس میں پانی بھریں تو وہ کنارے تک پہنچ کر فورا بہنے نہیں لگتا بلکہ ایک سوت کے برابر اٹھ کر گلاس کے کناروں کے اوپر گولائی میں ٹھہر جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ رقیق اشیاء کی سطح کے سالمات کے بعد چونکہ کوئی چیز نہیں ہوتی اس لیے ان کا رخ اندر کی طرف ہوجاتا ہے، اس طرح کے سالمات کے درمیان کشش اتصال بڑھ جاتی ہے، اور اس قانون اتصال کی وجہ سے پانی کی سطح کے اوپر ایک قسم کی لچکدار جھلی سی بن جاتی ہے اور پانی گویا اس کے غلاف میں اس طرح ملفوف ہوجاتا ہے، جیسے پلاسٹک کی سفید جھلی میں پسا ہوا نمک ملفوف ہوتا ہے، سطح کا یہی پردہ اوپر ابھرے ہوئے پانی کو روکتا ہے۔ یہ پردہ اس حد تک قوی ہوتا ہے کہ اگر اس کے اوپر سوئی ڈال دی جائے تو وہ ڈوبے گی نہیں بلکہ پانی کی سطح پر تیرتی رہے گی، اسی کو سطحی تناؤ کہا جاتا ہے اور یہی وہ آڑ ہے جس کی وجہ سے کھاری پانی اور میٹھے پانی کے دود ریا مل کر بہتے ہیں مگر ایک کا پانی دوسرے میں شامل نہیں ہوتا۔ (از مذہب اور جدید چیلنج) سبحان اللہ کس حکمت اور مہارت کا ثبوت ملتا ہے جو صرف رب رحمن و رحیم کی ہی کاریگری ہے اور اس طرح کی بیشمار نعمتیں اور برکتیں ہمارے لیے اللہ نے بنا رکھی ہیں کس کس نعمت سے انکار کیا جائے گا ؟ اسی طرح آیت 22 بتا رہی ہے کہ ' دونوں دریاؤں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں '۔ یہ آیت اللہ کی ایک اور بہت بڑی عنایت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کہ سمندروں کی گہرائیوں میں بیشمار مختلف قسم کے قیمتی مونگے موتی اور پتھر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بیشمار قسم کی عجیب و غریب مچھلیاں موجود ہیں ان میں سے کچھ مونگے اور کچھ مچھلیاں میٹھے پانی میں پلتی ہیں اور کچھ کو کھاری پانی کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کی مخلوقات کے لیے مناسب پانی کا بندوبست یوں کردیا ہے کہ دونوں قسم کے پانی وافر مقدار میں بہتے رہیں مگر آپس میں مکس نہ ہوں تاکہ جو جو حیوانات، نباتات اور جمادات ان پانیوں کے اندر پل بڑھ رہے ہیں ان کو اپنی طبیعی ضروریات کے مطابق میٹھا اور کھاری پانی ملتا رہے۔ جن کو میٹھا چاہئے وہ میٹھے پانی میں رہیں جن کو کھاری پانی چاہیے وہ کھاری پانی میں رہیں۔ ہے نا ! کتنی بڑی مہربانی بندوں پر اور تمام مخلوقات عالم پر۔ سبحان اللہ وبحمدہ۔ یہی تمام نعمتیں اور برکتیں ہیں جو اللہ نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دے رکھی ہیں تو اللہ رحمن و رحیم پوچھتا ہے کہ ' تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (آیت 23) اسی طرح بیشمار نعمتوں میں سے ایک اور بہت بڑی نعمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ ہے بڑے بڑے بحری جہاز جو سمندر میں کھڑے ہوئے پہاڑ کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بھی قدرت کا بہت بڑا کرشمہ ہے کہ اس قدر وزنی جہاز سمندروں کی موجیں مارتی سطح پر بیشمار لوگوں کو لے کر اور سامان کو لے کر ایک جگہ سے دوسری دور دراز جگہ پر لانے لے جانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ سب اسی کا کمال ہے پھر بھی بندہ اس کی شکر گزاری سے انحراف کرتا ہے تو رب رحمن پوچھتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ (آیت 25) ایک عارف کا مقولہ ہے کہ ' چیزوں نے ہمیں اللہ تک نہیں پہنچایا بلکہ اللہ نے ہمیں چیزوں تک پہنچایا، اور ان کے بارے میں صحیح علم دیا ہے۔ (از فتاوی ابن تیمیہ :18/2) اس قدر علم و عرفان حاصل کرنا اور پھر بھی اللہ کا شکر گزار نہ ہونا قابل مذمت بات ہے۔
Top