بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کرتی ہے اور وہ غالب و حکمت والا ہے۔
ﷲ اور اس کی صفات تشریح :۔ جیسا کہ ان آیات کریمہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ تمام کائنات ایک ہی اللہ بزرگ و برتر کی کمان میں ہے جو حکیم وعلیم، رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہے۔ زمان و مکان اللہ کے وجود میں سمٹا ہوا ہے۔ اس کی وضاحت ہم اس حدیث پاک سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضررسول کریم ﷺ کی دعا ہے ' تو ہی پہلا تجھ سے پہلے کوئی نہیں، تو ہی آخر ہے تیرے بعد کوئی نہیں، تو ہی ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی نہیں، تو ہی باطن ہے کوئی تجھ سے مخفی تر نہیں۔ (امام احمد، مسلم، ترمذی اور بیہقی) اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ' میرا رب فرماتا ہے کہ ابن آدم زمانے کو برا بھلا کہتے ہیں اور میں خود دہر ہوں۔ (صحیح بخاری) اسی طرح زمان و مکان کی حقیقت کو ایک سائنس دان یوں بیان کرتا ہے۔ ' اول و آخر زمان کی دو انتہاء ہیں، اور ظاہر و باطن مکان کی دو انتہاء ہیں اور ہر چیز کا پورا پورا علم ہونا شعور کی انتہاء ہے۔ اور یہ تینوں یعنی زمان و مکان اور شعور خالق کائنات کی صفات ہیں۔ مزید یوں لکھتے ہیں۔ ' آیت نمبر 3 حقیقت تک پہنچنے کے لیے انتہائی اہم ہے، معلوم ہونا چاہیے کہ اب اول و آخر کا تصور وقت سے ہے، ظاہر و باطن کا تصور مکان سے ہے۔ لہٰذا آیت مبارکہ تصور کو ادھر لے جاتی ہے کہ زمان و مکان کوئی علیحدہ حقائق نہیں بلکہ خالق کی عظیم ترین ہستی کے اندر کی دو صفات ہیں اور اس نے جب چاہا ان کا ظہور کردیا اور جب چاہے گا ان کو چھپالے گا۔ ماہرین طبیعات بھی آج کل ' اکائی ، ، کی بات کرتے ہیں جو ان کی تحقیق اور نظریہ کے مطابق کائنات کی ابتداء اور خاتمہ ہیں۔ لیکن وہ یہاں آکر رک جاتے ہیں جبکہ قرآن پاک انسان کو یہاں سے آگے اصل مالک اور خالق تک رسائی دیتا ہے جو یکتا ہے بےمثل اور غیر محدود ہے اور کائنات کی اکائی اس کا امر ہے جو پہلی تخلیق کا سبب تھا اور آخر کار موجودہ کائنات کو لپیٹ کر اللہ تعالیٰ اپنے امر سے نئی کائنات کی تخلیق فرمائے گا۔ (از قیامت اور حیات بعد الموت) یہی تشریحات ہم پر یہ واضح کرتی ہیں کہ جو بھی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ کو پہچانتے ہیں اور اس کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تسبیح کا طریقہ یہی ہے کہ جس نظام کے تحت ان کو چلا دیا گیا ہے وہ اسی کے تحت حرکت کرتے ہیں ایک پل کے لیے بھی اس کی حکم عدولی نہیں کرسکتے جبکہ انسان کا طریقہ مختلف ہے۔ ' آسمانوں اور زمین کا چھ دن میں پیدا کرنا اس کی تفصیلات سورة الاعراف، یونس، الرعد اور حٰم سجدہ میں گزرچکی ہیں۔ اسی طرح دن اور رات کا مسئلہ بھی وضاحت سے بیان کیا جا چکا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت کا ذکر کیا جا چکا ہے تو اسی میں اس کی ایک حکمت یہ بھی موجود ہے کہ ' وہ دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے۔ (آیت 6) اور حدیث میں ہے۔ ' افضل ایمان یہ ہے کہ تو جان رکھے کہ تو جہاں کہیں ہے اللہ تیرے ساتھ ہے۔ (نعیم بن حماد از تفسیر ابن کثیر) بری نیت سے کیا گیا نیک عمل قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ اگلی آیات میں مومن کے فرائض بیان کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
Top