بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Hashr : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے
” بنی نضیر “ کا عبرت ناک انجام تشریح : سب سے پہلے مالک کل جہاں کی حکمت اور اس کی بڑائی بیان کی گئی ہے اس طرح کہ کائنات کی ہر چیز چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے یہ تفصیلاً بیان کیا جا چکا ہے۔ یہاں اللہ کے غالب، زور آور اور قادر ہونے کا ثبوت یوں دیا جا رہا ہے کہ اس نے بنو نضیر کے قبیلے کو کتنی آسانی سے اکھیڑ باہر کیا جبکہ وہ لوگ مدتوں سے وہاں آباد تھے۔ ان کا ٹھکانہ مدینہ کے مشرق کی طرف مدینہ سے کئی میل کے فاصلے پر تھا وہ مالی، تجارتی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے بڑے مضبوط تھے۔ وہ اسلحہ کے لحاظ سے بڑے مضبوط تھے اور انہوں نے بڑے مضبوط قلعے بنا رکھے تھے اور ان کو اپنے محفوظ ٹھکانوں پر اپنی تعداد، مال اور دولت اور اسلحہ کی زیادتی پر بڑا ناز تھا وہ کبھی سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان کو کوئی اپنی جگہ سے ذرا برابر بھی ہلا سکے گا مگر اللہ کی قدرت کے سامنے وہ بالکل بےبس ہوگئے اور مسلمانوں کے پہلے ہی حملہ میں جلا وطن ہونے پر تیار ہوگئے۔ ہوا یوں کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ پہنچے تو وہاں یہودی ان کے سب سے بڑے دشمن تھے اللہ نے آپ ﷺ کو سیاسی اور عسکری حکمت عملی میں ماہر بنا رکھا تھا، لہٰذا آپ نے اپنے نظام میں ایسے قوانین نافذ کیے کہ جن کی رو سے تمام موجود قوموں کے حقوق کا تحفظ، مذہب، جان و مال اور عقیدے کا تحفظ لازمی ہوگیا اور پھر تمام قبائل سے باقاعدہ معاہدہ کرلیا گیا جس میں سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ امن و جنگ دونوں حالتوں میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ یہ معاہدہ اسلامی حکومت کی بنیاد بن گیا کیونکہ اس معاہدہ کے بانی ہونے کی وجہ سے مدینہ کی تمام قوت آپ کے قبضہ میں آگئی کیونکہ کسی بھی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنے کا حق آپ ﷺ کے ہاتھ میں آگیا تھا بہرحال یہودیوں نے وعدہ خلافی کئی مرتبہ کی اور بہت سی غلط حرکات مثلاً آپ ﷺ پر قاتلانہ حملہ اور منافقین کے ساتھ مل کر دشمنوں کی مدد وغیرہ تو اسی سلسلہ میں اللہ کے حکم سے بنو نضیر کو حکم دے دیا گیا کہ یہاں سے گھر بار زمین جائیداد چھوڑ کر نکل جاؤ ورنہ تمہارا انجام اچھا نہ ہوگا۔ انہوں نے بےرخی سے جواب دیا، ہم نہیں جاتے کرلو جو کرنا ہے،۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے ان کے محاصرہ کا حکم دے دیا۔ صرف چھ دن کے محاصرہ پر یہود نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اور پوچھا کہ ہم کہاں جائیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، محشر کی زمین کی طرف سیدناحسن ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ نے بنو نضیر کو جلا وطن کیا تو فرمایا یہ اول حشر ہے اور ہم بھی اس کے پیچھے ہی پیچھے ہیں۔ (ابن جریر از تفسیر ابن کثیر) ، اول المحشر، کی تفسیر میں بہت زیادہ اختلافات ہیں اور ہمیں اس میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہمیں صرف یہ پتہ ہونا چاہیے کہ بنو نضیر کا یوں جلا وطن ہوجانا کسی معجزہ سے کم نہ تھا کیونکہ دونوں فریق یعنی مسلمان اپنی فتح پر اور یہود اپنی شکست پر حیران تھے لیکن اللہ کی مرضی کے سامنے کسی کی نہیں چل سکتی تو یہود جنگ بدر کے 6 ماہ بعد اپنی جگہ ٹھکانا چھوڑ کر شام اور خیبر کی طرف چلے گئے۔ یہ واقعہ یوں عبرت دلاتا ہے کہ جب کوئی عزت دولت طاقت والا گروہ اللہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی طاقت اور رسول ﷺ کی حکمت کے سامنے کسی کا بھی ٹھہر نا ناممکن ہے۔ جیسا کہ بنو نضیر کا حال ہوا۔ اگر اور اکڑتے تو پھر ان کو اللہ کی طرف سے اور بھی زیادہ سختی اور عذاب دیکھنا پڑتا اور آخرت کا عذاب تو ان کے لیے مقرر کیا ہی جا چکا تھا جو ان کو ہر حال میں ضرور ملے گا اللہ نے آپ ﷺ کو سیاسی سوجھ بوجھ بہت زیادہ دے رکھی تھی یہی وجہ ہے کہ مدینہ کو یہودیوں سے بالکل پاک صاف کردیا گیا۔ بنو قینقاع سب کو جلا وطن کردیا گیا۔ اور یہ سب صرف اللہ کے اس فرمان کی سچائی میں ہوا کہ، جو شخص اللہ کی مخالفت کرے گا تو اللہ سخت عذاب دینے والا ہے،۔ (آیت 4)
Top