Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم پیدا کئے کہ مکاریاں کرتے رہیں اور جو مکاریاں یہ کرتے ہیں۔ ان کا نقصان انہی کو ہے اور وہ اس سے بیخبر ہیں۔
کفار کے مکر، رسالت کی تعریف اور انشراح صدر تشریح : جو لوگ دنیا میں کھو جاتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ خود ہی غلط راستوں پر چلتے ہیں بلکہ اپنے رعب داب اور مال و دولت کے زور پر دوسروں کو بھی گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں اور اس طرح کے لوگ ہرگز یہ نہیں سوچتے کہ یہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں خود اپنے لیے ہی وبال اکٹھا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بندے کو اختیار تو دیا ہے مگر ہدایت کے لیے پیغمبر ان کے پاس بھیجے جاتے ہیں تو وہ بجائے ہدایت پر غور کرنے کے الٹا حجت بازی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو کچھ نہیں مانتے اور نہ مانیں گے جب تک خود ہمیں رسالت نہ دی جائے۔ یہ ناسمجھ لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ رسالت کے لیے تو اللہ رب العزت صرف انہی لوگوں کو چنتا ہے جو انسانوں میں سب سے زیادہ برگزیدہ، نیک اور متقی ہوں نیز یہ نبوت و رسالت کوئی کسبی چیز نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے وہبی ہے اور یہ نور ہدایت بچپن سے انکے دل و دماغ میں موجود ہوتا ہے، رسالت کا مرتبہ اتنا بڑا اور مشکل ترین رتبہ ہے کہ جس کو نبھانا اور اس پر قائم رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبروں کی زندگیاں کس قدر آزمائشوں، سختیوں اور تگ و دو سے بھری ہوئی تھیں، خود نبی کریم ﷺ پر کس قدر ظلم و ستم ان کی قوم نے ان پر ڈھائے یہاں تک کہ وہ اپنا پیارا شہر مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر گئے۔ تو یہ بری ذہنیت کے لوگ پیغمبری کا درجہ کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ جب کہ ان کے دل و دماغ تو گناہ اور مکاریوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ تو جو لوگ گناہوں کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور وہاں سے نکلنا بھی نہیں چاہتے تو پھر اللہ ان کو عذاب کے طور پر اور بھی زیادہ دھکیل دیتا ہے سینہ کھول دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ انہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق دیتا ہے اور سینہ تنگ ہونے سے مرادوہ ایمان کے نور سے خالی اور کفر کی ظلمت سے بھرا ہواتنگ ہوجاتا ہے یہ تو دنیا کا عذاب ہے کہ نور ایمان سے محروم رہ جاتے ہیں آخرت میں اس سے بھی زبردست عذاب ان کو ملے گا۔ جو لوگ ہدایت ملنے پر بھی ہدایت کی راہ اختیار نہ کریں ان کو اللہ زبردستی ہدایت نہیں دیا کرتا۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے وضاحت کی ہے، فرماتے ہیں۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
Top