Mafhoom-ul-Quran - At-Taghaabun : 5
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١٘ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا نہیں آئی تمہارے پاس نَبَؤُا الَّذِيْنَ : خبر ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَذَاقُوْا : تو انہوں نے چکھا وَبَالَ اَمْرِهِمْ : وبال اپنے کام کا وَلَهُمْ عَذَابٌ : اور ان کے لیے عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
کیا آپ کو ان لوگوں کے حال کی خبر نہیں پہنچی جو پہلے کافر ہوئے تھے تو انہوں نے اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ لیا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
منکرین اور ان کا انجام تشریح : پچھلی آیات میں اللہ کی وحدانیت انسان کی فضیلت اور فرائض پھر ان لوگوں کے انجام کا ذکر ہے جو ایمان لائے یا جنہوں نے کفر کیا ان آیات میں خبردار کیا جا رہا ہے کہ عبرت حاصل کرنے کے لیے تمہارے سامنے گزشتہ تاریخی واقعات موجود ہیں کہ جن لوگوں نے نافرمانی کی دنیا میں ان کو مختلف عذاب دیے گئے مثلاً کسی کی بستیاں الٹ دی گئیں۔ کسی پر آسمان سے پتھر برسائے گئے اور کئی انسانی شکل و صورت سے محروم کر کے بدنما جانور بنا دیے گئے اور پھر مرنے کے بعد قیامت کے دن جو عذاب ان کو ملے گا وہ تو بڑا ہی درد ناک ہوگا۔ مگر کفار اس لیے بےپرواہ ہو رہے ہیں کیونکہ وہ دوبارہ زندہ کیے جانے اور حساب لیے جانے اور بدلہ دیے جانے پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ تو اللہ رب العزت اپنے پیارے رسول ﷺ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ اللہ کی قسم کھا کر ان کو آخرت کا اور دوبارہ اٹھائے جانے کا یقین دلا دو ۔ اور ان کو سمجھا دو کہ تمہیں اپنے دربار میں حاضر کر کے تمہاری اچھی طرح خبر لینا اللہ کے لیے ہرگز مشکل کام نہیں۔ اس کے کائنات کے کارخانے میں ہر وہ بندوبست موجود ہے جو تم میں سے ہر شخص کا ایک ایک عمل فلم کے ساتھ محفوظ کر رہا ہے اس کی سائنسی لحاظ سے توضیح ہوچکی ہے۔ اس لیے تمہارے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ نور ہدایت یعنی قرآن پاک کی روشنی میں گناہوں سے بچ کر نیکی اور نجات کا راستہ اختیار کرو۔ یہاں آپ ﷺ کو قسم کھا کر پیغام دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ محض پیغام میں زور اور بات میں سچائی پیدا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس طرح کی دو آیات پہلے گزر چکی ہیں۔ پہلی سور ہیونس میں دوسری سورة سبا میں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انسان اللہ و رسول پر ایمان لائے تو اللہ کو اس کا کوئی نفع نہیں اگر نہ لائے تو اس کی سلطنت میں کوئی کمی کوئی فساد پیدا نہیں ہوتا۔ اگر نفع ہوتا ہے نقصان ہوتا ہے تو وہ خود انسان کا ہوتا ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں گزار دی جائے تو اس میں نجات آخرت اور سکون دنیا ضرور ملے گا اور ایک کامیاب انسان کو اس سے زیادہ کیا چاہیے۔ دیکھا جائے تو یہ سب کچھ اللہ کی رحمت اور انسانوں پر مہربانی کا بہت بڑا سامان ہے۔ اکثر لوگ جو مسلمان ہوتے ہیں مگر دنیا کے ہنگاموں میں اس قدر غرق ہوچکے ہوتے ہیں کہ اگر ان کو کہا جائے کہ بھئی قیامت کو یاد کرو تمہارا حساب کتاب لیا جائے گا تو بےاعتنائی سے کہہ دیتے ہیں، اہو دیکھا جائے گا،۔ یہ ایمان کی کمزوری اور غفلت کا نتیجہ ہے تو ایسے تمام لوگ اور مشرک و کافر لوگوں کے لیے ہی سورة التغابن اور اسی مضمون کی بہت سی آیات قرآن پاک میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ سورت اپنے نام اور آیت 9 کے حوالے سے بڑی خوف دلانے والی سورت ہے۔ ، تغابن، غبن سے ہے۔ غبن کے بیشمار معنی ہیں۔ مثلاً لین دین کرنا، دھوکہ دینا، لوٹ لینا، ذہن کی کمزوری، غفلت، بھول، حصہ سے محروم رہ جانا اور کاروبار میں دھوکہ دے دینا وغیرہ۔ اس کو یوں واضح کرتے ہیں۔ امام حسن بصری (رح) تعالیٰ نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کو بیع میں دھوکہ دے رہا ہے تو آپ نے فرمایا، یہ شخص تجھے بیوقوف بنا رہا ہے،۔ جیسا کہ ہم اردو میں عام طور پر یوں کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے بینک میں یا کہیں بھی اتنا بڑا غبن کیا اور پھر بھاگ گیا۔ یہاں اس لفظ کو مفسرین صاحبان نے یوں بیان کیا ہے۔ ، قیامت کے دن ظالم کی اتنی ہی نیکیاں مظلوم لوٹ لے جائے گا جو اس پر ہونے والے ظلم کا بدلہ ہو سکیں یا مظلوم کے اتنے گناہ ظالم پر ڈال دیے جائیں گے جو اس کے حق کے برابر وزن رکھتے ہوں۔ ، ایک حدیث پاک سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، جس شخض کے ذمے اپنے کسی بھائی پر کسی قسم کے ظلم کا بار ہو، اسے چاہیے کہ یہیں اس سے سبک دوش ہو لے کیونکہ آخرت میں درہم و دنیا رنہ ہوں گے وہاں اس کی نیکیوں میں سے کچھ مظلوم کو دلوائیـ جائیں گی یا اگر اس کے پاس کافی نیکیاں نہ ہوں تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے۔ (ازمطالعہ قرآن صفحہ 127) ۔ اس سورت میں ہماری زندگیوں کو بدلنے کے لیے کافی دلائل دیے گئے ہے۔ تغابن کا لفظ اپنے اندر بڑی حقیقت سمیٹے ہوئے ہے۔ قیامت کے دن کے ساتھ تغابن کا لفظ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور نیک عمل کرنا بڑی سعادت کی بات ہے۔ کیونکہ ایماندار نیک بندے کے چھوٹے موٹے گناہ اللہ نے ویسے ہی معاف کردینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور بہشت کا داخلہ تو ہوگا ہی، وہ بہشت جس کا نقشہ ہی ایسا دل فریب ہے کہ بندہ سوچے سب کچھ بیچ دو اور بہشت خریدلو۔ یہ اللہ کا دستور ہے کہ جہاں نیک کا ذکر ہوگا تو وہاں بد کا ذکر ضرور ہوگا، لہٰذا نیکی کا بدلہ جنت ہے تو بدی کا بدلہ دوزخ ہے۔ وہ بہترین ہے اور یہ بد ترین ہے۔ جو چاہو خرید لو مہلت تمہیں مل چکی ہے اور روشنی تمہارے سامنے ہے۔ جیسا کہ اگلی آیات میں ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top