Mafhoom-ul-Quran - Al-A'raaf : 29
قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ١۫ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ؕ۬ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَؕ
قُلْ : فرما دیں اَمَرَ : حکم دیا رَبِّيْ : میرا رب بِالْقِسْطِ : انصاف کا وَاَقِيْمُوْا : اور قائم کرو (سیدھے کرو) وُجُوْهَكُمْ : اپنے چہرے عِنْدَ : نزدیک (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّادْعُوْهُ : اور پکارو مُخْلِصِيْنَ : خالص ہو کر لَهُ : اسکے لیے الدِّيْنَ : دین (حکم) كَمَا : جیسے بَدَاَكُمْ : تمہاری ابتداٗ کی (پیدا کیا) تَعُوْدُوْنَ : دوبارہ (پیدا) ہوگے
کہہ دو کہ میرے رب نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا قبلہ کی طرف رخ کیا کرو۔ خاص اسی کی عبادت کرو اور اسی کو پکارو۔ اس نے جس طرح تم کو پہلے پیدا کیا تھا اسی طرح تم پھر پیدا کئے جاؤ گے۔
سزا اور جزا کی خبر تشریح : پچھلی آیات میں بہترین زندگی گزارنے کے اصول، قوانین اور طریقے بتائے گئے ہیں۔ ان آیات میں دوبارہ صالحین اور مشرکین کے بارے میں وضاحت کی جا رہی ہے تاکہ کسی قسم کا کوئی شک باقی نہ رہ جائے کیونکہ اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔ اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ بھئی مرنے کے بعد کس طرح ہم زندہ ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو باربار سمجھا رہے ہیں کہ کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔ تم کھائو، پیو اور مزے اڑالو مگر یاد رکھو موت کا وقت مقرر ہے ایک سیکنڈ بھی اس سے آگے پیچھے نہ ہوگا۔ اس وقت تم اپنے برے اعمال پر پچھتائو گے تو کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ عمل کا وقت ختم ہوچکا ہوگا۔ جس طرح تمہارا پیدا ہونا، پرورش پانا حیرت انگیز ہے اسی طرح تمہارا دوبارہ پیدا کیا جانا حیرت انگیز ہے مگر اللہ کے لیے نہ مشکل ہے اور نہ ہی ناممکن۔ اس لیے خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ سب باتیں الہ ‘ العالمین کی کہی ہوئی ہیں بالکل سچ اور یقینی ہیں۔ ان باتوں میں ہرگز کوئی کمی بیشی نہ ہوگی۔ تمہیں راہ دکھانے کے لیے نبی بھیجے گئے ہیں۔ ان کا حکم مانو۔ پھر آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ ان تمام لوگوں کو نیکی اور بدی اور ان کی سزا و جزا کی تفصیلات خوب اچھی طرح بتا دو ۔ تو اخروی کامیابی کے لیے یہ اصول اپنائے جائیں۔ 1 توحید پر پکا یقین دل سے اور زبان سے اقرار۔ -2 جب نماز کا وقت ہو تو اللہ کے حضور حاضر ہونے کے لیے صاف ستھرے کپڑے پہنو اور قبلہ کی طرف رخ کرکے پورے خشوع خضوع اور سنت رسول کے مطابق نماز پڑھو۔ -3 قیامت پر، یوم الحساب پر پکا یقین کرو۔ -4 اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتوں سے خوب عیش کرو مگر جائز طریقہ سے۔ -5 فضول خرچی ہرگز نہ کرو۔ فضول خرچی اللہ کو ہرگز پسند نہیں۔ -6 قرآن و حدیث کی پوری پوری پیروی کرو۔ سنو اور عمل کرو۔ -7 موت کو ہمیشہ یاد رکھو۔ موت یقینی ہے۔ -8 اللہ سے ہر وقت ڈرو اسی طرح تمہیں سکون ہوگا۔ اللہ کے سوا ہرگز کسی سے مت ڈرو۔ اس پر پورا بھروسہ کرو۔ -9 تمام حلال باتوں پر عمل کرو اور حلال چیزوں کو کھائو خود اپنے پاس سے کسی حلال چیز کو حرام اور حرام چیز کو حلال مت بنائو۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ایسے اچھے اور سچے مسلمانوں کے لیے اللہ کے پاس بہت بڑا، زبردست انعام ہے۔ جو ان کو اس ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے دیا جائے گا۔ وہ جنت، بہشت کہلاتا ہے۔ اس کی تعریف بہت دفعہ کی جا چکی ہے اور یہاں بتایا گیا ہے کہ جنت میں نیک لوگوں کے لیے محلات ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اس میں داخل ہونے کے لیے نیک اعمال اور اللہ کا فضل ضروری ہے اور پھر مزید مہربانی اللہ کی طرف سے یہ ہوگی کہ اہل جنت کو اگر اپنے کسی ساتھی سے کوئی شکوہ، گلہ یا حسد بغض یا کدورت ہوگی تو اللہ رب العزت اپنے فضل و کرم اور قدرت سے ان کے دل حسد، بغض اور ناراضگی سے بالکل پاک صاف کرکے ان کو جنت میں داخل کرے گا۔ یعنی وہ ہر طرح سے پرسکون اور خوش باش رہیں گے۔ اور اس عظیم نعمت کے لیے اہل جنت ہر وقت اللہ کا شکر ادا کریں گے کیونکہ بہشت میں داخلہ نہ زبردستی ہو سکے گا اور نہ ہی اپنی مرضی سے ہو سکے گا۔ اس داخلہ میں بھی رب العالمین کی ہی رحمت شامل ہوگی۔ اور پھر یہ وقت کس قدر خوشی اور باعث سکون ہوگا جب اللہ رب العزت یہ اعلان عام کریں گے کہ اے لوگو ! تم نے اپنے دنیا کے اچھے اعمال کی وجہ سے جنت حاصل کرلی ہے اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے مالک بنا دیے گئے ہو۔ اس کا اندازہ ہم یوں کرسکتے ہیں کہ جب ایک بچہ محنت سے فرسٹ پوزیشن حاصل کرتا ہے یا جب نیک والدین نیک اولاد کو دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل کرتے دیکھتے ہیں یا پھر کوئی نیک بندہ اپنی محنت اور نیک کمائی سے ایک گھر بناتا ہے۔ یہ سب اسی خوشی سے کئی گنا کم ہوگا جو جنت میں ملکیت ملنے سے خوشی حاصل ہوگی۔ اس لیے ہر وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارا عمل جنت حاصل کرنے کے معیار پر پورا اترنا چاہیے۔ کیونکہ جنت کے ساتھ ہی جہنم کا ذکر بھی اللہ رب العزت نے باربار کیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں بھی کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق مندرجہ ذیل سب کام غلط ہیں۔ -1 بےحیائی۔ -2 گناہ، جو باتیں اللہ نے حرام کی ہیں وہ سب گناہ ہیں۔ -3 کسی بھی انسان یا جانور سے زیادتی کرنا اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد سب شامل ہیں۔ تفصیل انشاء اللہ آئندہ بتائی جائے گی۔ -4 اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔ شرک تو بہت بڑا ظلم کہلاتا ہے اور مشرک کبھی بھی معاف نہیں ہوگا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ -5 اللہ پر بہتان۔ یعنی بغیر کسی دلیل یا ثبوت کے یہ کہہ دینا کہ یہ کام تو ہمیں اللہ نے کہا تھا، یعنی حرام کاموں کو اللہ کا حکم کہہ کر کرلینا اور دوسروں کو بھی ترغیب دینا۔ یہ اور اسی طرح کی بیشمار باتیں جو قرآن و سنت کے خلاف جاتی ہوں۔ جہنم میں لے جانے کا سبب بنیں گی۔ جہنم کی تعریف اللہ رب العزت نے بڑے ہی خوف ناک الفاظ میں کی ہے۔ یعنی بچھونا بھی آگ کا ہوگا اور اوڑھنا بھی آگ کا ہوگا۔ استغفر اللہ ذرا دھوپ میں یا جلتی ہوئی آگ کے قریب کھڑے ہوں تو کتنی زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ عذاب کے وقت لوگ اپنے سرداروں استادوں اور راہبروں کو مدد کے لیے پکاریں گے مگر ان کے تمام حمایتی اس وقت غائب ہوں گے کوئی مدد کو نہ آئے گا۔ ویسے بھی قیامت کے بعد حساب کتاب اور فیصلہ کا دن ایسا ہوگا کہ صرف اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ کوئی سفارش کوئی مال و دولت کوئی اثر ورسوخ اس دن نہ عذاب میں کمی کروا سکے گا اور نہ ہی عذاب سے بچا سکے گا۔ یہ اللہ کا فرمان ہے جو اس نے قرآن کے ذریعہ لوگوں تک پہنچا دیا ہے اور یہ اتنا ضروری اور حق ہے کہ اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے یوں دی ہے کہ نافرمان لوگ جنت میں داخل نہ ہو سکیں گے جیسا کہ ایک اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہیں گزر سکتا۔ اسی طرح ان کے عذاب کا ٹل جانا اور جہنم کے بجائے جنت میں داخل ہوجانا ہرگز ہر صورت ناممکن ہے۔ پہلے یا پچھلے لوگ جنہوں نے نافرمانیاں کیں اور بد عقیدہ رہے سب جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ یہ سب آیات اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی ہیں جو بالکل سچ ہیں۔ ان میں نہ تو شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی ردوبدل کی گنجائش ہے۔ اللہ نے جو کچھ عذاب اور انعام کا بتایا ہے بالکل ہو کر رہے گا۔ اعمال ہی ہماری نجات کا ذریعہ ہوں گے اور اعمال ہی ہماری سزا کا سبب ہوں گے۔ علامہ اقبال نے کچھ یوں فرمایا ہے : عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
Top