Mafhoom-ul-Quran - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور اسی طرح جب ہم نے لوط کو پیغمبر بنا کر بھیجا تو اس وقت اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بےحیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے پہلے اہل دنیا میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا۔
قوم لوط کا گناہ اور عذاب تشریح : انبیاء اور ان کی قوموں کے قصوں کا جو سلسلہ چل رہا ہے ان میں سے یہ چوتھی قوم لوط ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں یوں کیا گیا ہے۔ لوط (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں یہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بت پرست والد اور تمام خاندان کو چھوڑ کر عراق سے شام کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کی تو ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور بھتیجا سیدنا لوط (علیہ السلام) تھے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین میں اور سیدنا لوط (علیہ السلام) اردن چلے گئے وہاں ان کو حکم ہوا کہ سدوم شہر کے مضافات میں چلے جاؤ اور وہاں کے لوگ بد راہ ہوچکے ہیں انکو راہ ہدایت دکھاؤ۔ سدوم والوں میں کسی قسم کی کمی نہ تھی بڑے سر سبز و شاداب زمین و باغات کے وہ مالک تھے اور ہر طرح سے فارغ البال تھے تو وہ بجائے شکر کے الٹا گناہوں کی دلدل میں پھنس گئے۔ خاص طور سے انہوں نے ایک سخت اور نقصان دہ گناہ کا عادی اپنے آپ کو بنا لیا تھا کیونکہ ان سے پہلے کسی قوم نے یہ سخت گناہ نہ کیا تھا۔ گناہ یہ تھا کہ اپنی فطری اور نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے بجائے اپنی عورتوں کے جوان لڑکوں سے اپنی خواہش کو پورا کرتے تھے۔ اور اس انتہائی گندے گناہ کی وجہ سے خاندان تباہ ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے لیے بنایا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے نفسانی خواہش کو جائز طریقہ سے پورا کریں اور پھر دوسری طرف اس کے پورا ہونے سے اولاد جیسی نعمت بھی حاصل ہوتی ہے اللہ نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے تو یہ ویسے ہی بےمقصد کام نہیں بلکہ انسان کے جوڑے سے گھر آباد ہوتے ہیں اور محلے، شہر، ملک اور دنیا کی آبادی بڑھتی ہے۔ مگر قوم لوط نے اس فطرت کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیویوں کو چھوڑ کر لڑکوں سے لذت حاصل کرنا شروع کردی۔ جب سیدنا لوط (علیہ السلام) نے انہیں اس بےہودہ اور نقصان دہ کام سے منع کیا تو الٹا ان کو ہی وہاں سے چلے جانے کو کہہ دیا۔ اور بالکل ٹس سے مس نہ ہوئے اپنے برے کام کو ٹھیک سمجھ کر کرتے رہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے سیدنا لوط کو حکم دیا کہ اپنے اہل و عیال کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ کیونکہ اس قوم کی تباہی کا وقت آگیا ہے۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) کی بیوی ایمان نہ لائی تھی اور اپنی گناہگار قوم کی طرفدار تھی لہٰذا وہ بھی عذاب کا نشانہ بن گئی۔ عذاب ان پر آیا کہ اللہ کی قدرت سے ان پر پتھروں کی شدید بارش ہوئی۔ یعنی آسمان سے پتھر برسنے لگے اور یوں پوری قوم تباہ برباد ہوگئی۔ معارف القرآن میں اس جگہ کی نشاندہی اس طرح کی گئی ہے لکھتے ہیں ” اور یہ منظر آج بھی موجود ہے بیت المقدس اور نہر اردن کے درمیان آج بھی یہ قطعہ زمین بحر لوط یا بحر میت کے نام سے موسوم ہے اس کی زمین سطح سمندر سے بہت گہرائی میں ہے اور اس کے ایک خاص حصہ پر ایک دریا کی صورت میں پانی موجود ہے جس میں کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا اسی لیے اس کو بحر میت کہتے ہیں یہی مقام سدوم کہلاتا ہے۔ تو ایک عبرت ناک قصہ تھا جو گزر چکا افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں جدید مغربی تہذیب میں اس گندے اخلاقی جرم کے حق میں زبردست پروپیگنڈا کیا ہے۔ یہاں تک کہ بعض ملکوں کی مجالس قانون ساز نے اسے باقاعدہ جائز ٹھہرا دیا ہے، حالانکہ طبی، اخلاقی اور انسانی فطرت کے لحاظ سے صاف طور پر یہ غیر فطری کام انتہائی گندا، نقصان دہ اور جرم کی حد تک ناجائز ہے۔ یہ گناہ بےشمارواضح نقصانات کا پیش خیمہ ہے۔ تو رب العالمین نے اس گناہ کی روک تھام کے لیے ایک خوفناک بیماری ایڈز پیدا کردی ہے کہ اس مہلک بیماری کے ڈر سے یہ تہذیب و تمدن کے علمبردار لوگ اس خبیث گناہ سے بچنا شروع کردیں اور دنیا اس کی تباہ کاریوں سے بچ سکے اللہ تمام مخلوق کو اپنی امان میں رکھے۔ آمین
Top